تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :صراطِ مستقیم وہ ہے جس پر اللہ کے نبی ﷺنے ہمیں چھوڑا تھا ۔الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ الَّذِي تَرَكَنَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔(طبرانی کبیر :10454) نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، حاکم کی سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ وہ حاکم حبشی ہی کیوں نہ ہو، پس تم میں سے جو میرے بعد رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، (لہٰذا اِس بات کو اپنے پلّو باندھ لو کہ )دین میں نئی نئی پیدا ہونے والی باتوں سے بچنا ، اِس لئے کہ وہ گمراہی ہیں، پس اُس زمانے کو جو بھی پائے اُسے چاہیئے کہ میری سنّت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنّت کو اپنے اوپر لازم کرلے ، اُسے مضبوطی سے اپنے دانتوں سے تھام لے۔أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ۔(ترمذی:2676)امر بالمعروف ،نہی عن المنکر اور اہلِ فتن سے قتال: مذکورہ تینوں کام ایسے عظیم کام ہیں کہ اِن میں لگنے والوں کو آپﷺنے عظیم اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا ہے،چنانچہ حدیث میں ہے : اس امت کے اخیر زمانہ میں ایک جماعت ایسی پیدا ہوگی جس کا ثواب اول لوگوں (صحابہ کرام ) کے ثواب کے مانند ہوگا، اس جماعت کے لوگ امر بالمعروف کریں گے، بری باتوں سے روکیں گے اور فتنہ پروروں سے قتال کریں گے۔إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقَاتِلُونَ أَهْلَ الْفِتَنِ۔(مشکوۃ :6289)عُزلت نشینی یا میدانِ کار زار: فتنوں کے دور میں آپﷺ نے دو کاموں کو اُس وقت کا بہترین کام قرار دیا گیا ہے: ایک یہ کہ سب سے الگ تھلگ رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگنا اور دوسرا یہ کہ گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر دشمن سے برسرِ پیکار ہونا، چنانچہ حدیث میں ہے : نبی کریمﷺنے ایک دفعہ فتنہ کا تذکرہ فرمایااور اُسے بہت قریب قرار دیا ، حضرت امِّ مالک بہزیہ فرماتی ہیں کہ میں نے