تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں :بے شک ساری کی ساری گمراہی تو یہ ہے کہ تم گناہ کو نیکی اور نیکی کو گناہ سمجھنے لگو ، پس اچھی طرح آج جس حالت میں تم ہو اُس کو دیکھ لو اور اِسی کو تھام لو کیونکہ پھر تمہیں کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ إِنَّ الضَّلَالَةَ حَقَّ الضَّلَالَةِ أَنْ تَعْرِفَ مَا كُنْتَ تُنْكِرُ، وَتُنْكِرَ مَا كُنْتَ تَعْرِفُ، فَانْظُرِ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ الْيَوْمَ فَتَمَسَّكْ بِهِ، فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّكُ فِتْنَةٌ بَعْدُ۔(الفتن لنعیم بن حماد:134)اہلِ حق کی پہچان کیسے ہو؟ یہ ایسا نازک سوال ہے جس کا ہر کوئی اپنے اعتبار سے جواب بناکر پیش کرتا ہے ، حالانکہ نبی کریم ﷺ ہمیں اِس سوال کا جواب عنایت فرماکر دنیا سے تشریف لے گئے ہیں لہٰذا اِدھر اُدھر کہیں بھٹکنے کی ضرورت نہیں ، خود نبی کریمﷺکے الفاظ میں اِس سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیے : نبی کریمﷺکا ارشاد ہے : جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے بالکل برابر ہوتا ہے اِسی طرح میری امّت بھی بنی اسرائیل کی طرح وہ سب کچھ کرے گی جو اُنہوں نے کیا تھا (یعنی دونوں کے کاموں میں کوئی فرق نہ ہوگا)حتی کہ بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کیا تھا تو میری امّت میں بھی اِس کام کے کرنے والے ہوں گے، بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹے تھے ، میری امّت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ، وہ سب کے سب جہنمی ہوں گے ، صرف ایک جماعت جنتی ہوں گی، حضرات صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ وہ کون ہیں ؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا:” مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي“ یعنی وہ لوگ جو میرے اور صحابہ کرام کے طریقے پر ہوں گے ۔لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔(ترمذی:2641) اِس سے معلوم ہوا کہ حق اور اہلِ حق کا معیار نبی اور صحابہ کا طریقہ ہے ، یہ وہ کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر کسی کے حق اور باطل پر ہونے کو پرکھا جاسکتا ہے ۔ موجودہ زمانے کی ساری بدعات و خرافات کے غلط ہونے کی سب سے بڑی دلیل اور واضح ثبوت یہی ہے کہ وہ نبی اور صحابہ کرام کے طریقے کے مخالف ہیں اور اِسلام کے قرون اولیٰ ثلاثہ میں اُس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔