تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
کی نجات کا باعث بن جاتا ہے، ذیل کے ارشادات سے مال میں خیر و بھلائی کے پہلو کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے: نبی کریمﷺکا ارشاد ہے:مالداری میں اُس شخص کے لئے کوئی حرج نہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو ۔لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنْ اتَّقَى اللهَ۔(مسند احمد:23158) نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے،جس نے اس کو اس کو حق طریقے سے حاصل کرکےحق جگہ پر خرچ کیا اُس کے لئے یہ ایک بہترین معاون اور مددگار ہے۔إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، مَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ، فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ۔(شعب الایمان :1191) ایک اور روایت میں ہے آپﷺنے ارشاد فرمایا:نِعْمَ المالُ الصَّالحُ للرَّجُلِ الصالحِ۔اچھا مال نیک انسان کے لئے کس قدراچھی چیز ہے۔(مشکوۃ :3756) مالِ صالح کی تعریف یہ ہے:الْمَالُ الصَّالِحُ مَا يُكْسَبُ مِنَ الْحَلَالِ، وَيُنْفَقُ فِي وُجُوهِ الْخَيْرَاتِ۔یعنی مالِ صالح وہ ہے جو حلال طریقے سے کمایا جائے اور خیر کے مصارف میں خرچ کیا جائے۔(مرقاۃ:6/2438) حدیثِ قدسی ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :ہم نے مال اِس لئے اُتارا ہے تاکہ لوگ اس کے ذریعہ نماز قائم کریں اور زکوۃ اداء کریں۔قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:إِنَّا أَنْزَلْنَا الْمَالَ لِإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ۔(شعب الایمان :9800)مال کے اندر شراور فتنہ کا پہلو: مال اگر غلط طریقے سے کمایا اور غلط مصرَف پر خرچ کیا جائے، اُس کے حقوق کی ادائیگی سے غفلت برتی جائے تو یہ ایک عذاب بن جاتا ہے ، انسان کی دنیا و آخرت کو برباد کرکے رکھدیتا ہے ، جیسا کہ قارون کا حشر قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے جو قیامت تک کی انسانیت کے لئے نشانِ عبرت ہے۔قرآن و سنت میں مال کو ”فتنہ“ کہا گیا ہے جس کا مطلب ”آزمائش“ ہے ، اس کے ذریعہ بندوں کو آزمایا جاتا ہے ، کبھی مال کولے کر مفلس و قلاش یا تنگی ِ رزق کا شکار کردیا جاتا ہے،تاکہ صبر کا امتحان ہو سکے، اور کبھی فراوانی و خوشحالی میں نہال کر کے شکر کا امتحان لیا جاتا ہے ،گویا انسان غربت و امیری ، تنگ دستی و خوشحالی دونوں ہی حالتوں میں حالتِ امتحان میں ہے ۔