تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
فرائض اور حقوق کی ادائیگی: خواہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہوں یا بندوں کے ،پس کسبِ معاش کی وجہ سےسے نماز ، روزہ اور دیگر اعمال و فرائض میں کوتاہ نہیں ہونا چاہیئے۔جیسا کہ حدیث میں ” بَعْدَ الْفَرِيضَةِ “ کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اُن تاجروں کی مدح فرمائی ہے جو تجارت میں لگے رہنے کے باوجود بھی اللہ کے ذکر اور اور دیگر اعمال سے غافل نہیں رہتے:رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ۔(النور:37) کسب میں انہماک سے اجتناب:یعنی اتنا زیادہ ہر وقت فکرِ معاش میں سرگرم رہنا کہ اپنی ذات اوربیوی بچوں اور گھروالوں کی اصلاح و تربیت ہی کا وقت نہ رہے ، یہ کوئی اچھی صفت نہیں ہے ،شریعت میں ہر چیز کے اندر اعتدال کا حکم ہے ، کسبِ معاش میں بھی ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے،چنانچہ حدیث میں ہے: دنیا طلبی میں اجمال سے کام لو ۔ أَجْمِلُوا فِي طَلَبِ الدُّنْيَا۔(ابن ماجہ:2142) صَرفِ مال کے حقوق: مال کے واجبی حقوق کی ادائیگی۔یہ اِنفاق کا واجبی درجہ ہے،جس کی ادائیگی بہر صورت لازم ہے ، جیسے زکوۃ ، صدقہ فطر ، قربانی اور حج کی ادائیگی ، اِسی طرح اُن لوگوں کا نان نفقہ جن کی ذمہ داری کندھوں پر عائدہوتی ہے ۔ اِنفاق فی سبیل اللہ کا اہتمام ۔یہ اِنفاق کا دوسرا درجہ ہے جس کو نفلی صدقہ کہا جاتا ہے ، یہ بھی مال کا ایک حق ہی ہے ، جیسا کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:بے شک مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔إِنَّ فِي المَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ۔(ترمذی:659) خرچ میں میانہ رَوی کا لحاظ۔یعنی اِسراف و تبذیر سے بھی اجتناب کیا جائے اور بخل کا بھی اِرتکاب نہ ہو، کیونکہ دونوں ہی حدِ اعتدال سے نکلے ہوئے اِفراط و تفریط کے درجے ہیں ، جن کی قرآن و سنت میں بڑی سختی کے ساتھ مذمّت کی گئی ہے،نبی کریمﷺکا ارشاد ہے :خرچ میں میانہ روی کو اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔الِاقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ۔(شعب الایمان:6148) اِسراف اور بخل کی مذمّت پر قرآن کریم کی آیات: