ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
خلاصہ یہ ہے کہ بڑی چیز راہ پر آگاہ کر دینا اور پتہ و نشان بتلا دینا ہے یہ ہی تو ہے جس کو میں نے کہا تھا کہ ایک ہی جلسہ میں میں طالب کو خدا تک پہنچا دیتا ہوں حضرت طریق نہ معلوم ہونا بڑا ہی بھاری خسارہ ہے پھر طریق معلوم ہونے کے دو درجے ہیں ایک تقلید ایک تحقیق مبتدی کو تقلید ہی کی ضرورت ہے اگر کسی کو خود رستہ نظر نہ آوے مگر تحقیق کہتا ہے کہ یہ رستہ ہے تو اپنی نظر پر اعتماد نہ کرے اس کی خبر پر اعتماد کر کے چلنا شروع کر دے جوں جوں بڑھتا جائے گا ساتھ ساتھ راستہ نظر آتا رہے گا گرچہ رخنہ نیست عالم راپدید ـ اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں ـ پشاور سے کلکتہ تک سڑک گئی ہے ایک شخص پشاور سے کلکتہ پہنچنا چاہتا ہے مگر وہ جب نظر کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سڑک درختوں اور آسمانوں سے بند ہے یہ دیکھ کر مایوس ہو جاتا ہے کہ راستہ بند ہے میں منزل کو طے نہیں کر سکتا ـ مگر جاننے والا کہتا ہے کہ چل تو سہی اپنے موٹر کو گرم کر ہمت سے کام لے چلنا شروع کر جس وقت موٹر چلنا شروع ہو جائے گا راستہ خود بخود دکھلتا جائے گا جس قدر آگے بڑھتا جائے گا راستہ اسی قدر کھلا ہوا نظر آئے گا مولانا اسی کو فرماتے ہیں : گرچہ رخنہ نیست عالم رپدید ٭ خیرہ یوسف دارمی باید دوید ( اگرچہ دنیا میں طریق حق کے راستہ بند معلوم ہوتے ہیں لیکن طالب کو یوسف علیہ السلام کی طرح بغیر اسباب ظاہری پر نظر کئے دوڑنا چاہئے ـ 11) اس لئے ضرورت ہے ایسے رہبر کی جس کے محقق اور شفیق ہونے پر اعتماد ہو ـ آجکل میں کھانسی کی دوا کھا رہا ہوں یہ اجزاء کتابوں میں ہیں مگر بغیر اہل فن کے بتلائے اور تجویز کئے ہوئے اطمینان نہیں ہو سکتا ـ اب جو اہل فن سے تجویز کرا کر استعمال کر رہا ہوں اطمینان ہے اس لئے کہ اس کے نقصان اور مضرت کا وہ ذمہ دار ہے اور محقق ہونے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی بات سے اطمینان اور قلب کو قرار ہو جائے اور جو شخص غیر محقق اور غیر مبصر ہوتا ہے اس کی بات سے اطمینان نہیں ہوتا اگرچہ بڑی بڑی باتیں ہی کیوں نہ کرتا ہو اسی کو فرماتے ہیں ؎ وعدہ ہا باشد حقیقی دلپذیر ٭ وعدہ ہا با شد مجازی تاسکیر ( حقیقت پر مبنی باتیں دل کو لگتی ہیں اور بناوٹی باتوں سے جی اکتاتا ہے ـ )