ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
نہ تھی جس کو وہ طے کر رہے تھے میں نے تسلی کی کہ جناب گھبرائیں نہیں پریشان نہ ہوں اب تو جو ہونا تھا ہو چکا خواہ پریشان ہو جیئے خواہ افسوس کیجئے مگر ظاہرا یہ گاڑی رڑکی سے اس طرف تو ٹھہر نہیں سکتی مگر ان کو کسی طرح اطمینان نہ ہوتا تھا کبھی لاحول پڑھتے اور کبھی انا للہ کبھی کھڑے ہوتے تھے اور کبھی بیٹھتے تھے میں نے کہا پریشانی بے فائدہ ہے ـ اطمینان سے باتیں کیجئے میں ان کو باتوں میں لگانا چاہتا تھا لیکن وہ اس سے جھنجھلاتے تھے کہ واہ صاحب تم کو ہنسی کی سوجھی ہے اور مجھ کو الجھن لگی ہوئ ہے اس حکایت سے میرا مقصود یہ ہے کہ میں نے اس وقت اپنی اور ان کی حالت کا موازنہ کیا تھا میں اپنے آپ کو ایسا مطمئن پاتا تھا گو یا بادشاہ ہوں اس لۓ کہ مجھ کو اس خیال سے راحت تھی کہ میں راہ پر ہوں اور وہ ایسے پریشان تھے کہ کوئ مجرم قید کر دیا جاۓ ان کو اس خیال سے پریشانی تھی کہ میں بے راہی پر ہوں اگر وہ رڑ کی ہی پہنچ گۓ تو یہ ظاہر ہے میرٹھ پھر بھی اتنی دور نہ تھا کہ جس پر ان کو اس قدر پریشانی لاحق تھی ـ صاحبو! مقصود ان کا قریب تھا میرٹھ اور میرٹھ اور میرا بعد لکھنو مگر بے راہی کی وجہ سے وہ پریشان تھے اور میں مطمئن ـ سبب اس کا یہ تھا کہ وہ گمراہی پر تھے اور میں راہ پر تھاـ حق سبحانہ و تعا لی اسی کو کلام پاک میں فرماتے ہیں: اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون (بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پور ے کامیاب) ہدی کو فلاح سے پہلے فرمایا اصل چیز تو راہ ہی ہے جس کو صراط مسطقیم (سیدھا رستہ) کہتے ہیں دنیا میں مسلمان کیلۓ جس اصلی جزا کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ وہ ہدایت پر ہے اور سیدھے راستے پر چل رہا ہے اور جو اس راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے اس کیلۓ مفلحون(پورےکامیاب ) فرمایا گیا ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسے بزگوں کی جو تیوں میں پہنچا دیا کہ انہوں سیدھے راستے پر ڈال دیاـ