ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
کہا پھر ملا کر کہا تو میں ابن تیمیہ سے پوچھتا ہوں کہ یہ جائز ہے یا محض اسلئے کہ منقول نہیں نا جائز ہے ابن تیمیہ کے پاس سوائے تعلیم جواز کے کوئی جواب نہ ہوتا - کیونکہ حقیقت اس کی صرف یہ ہے کہ مذکور کو حافظہ میں راسخ کرتا ہے اب جس ہیئت سے ہو اور گو وہ ہیئت منقول بھی نہ ہو پس اسی طرح ذاکر کا مقصود قلب میں توجہ الی اللہ کو راسخ کرنا ہے پس مقصود کو قلب میں راسخ کرنے کو کون منع کر سکتا ہے نیز رسوخ اور سہولت کے اثر کا ایک اور راز ہے وہ یہ کہ تجربہ سے اس طریق کا لذت بخش ہونا مشاہد ہے اور الفاظ میں قدر لذت ہوگی اسی قدر جلد اور سہولت سے اس کو مدلول کے متمکن ہونے میں کامیاب ہو گا لفظ اللہ کے تکرار میں بڑی لذت ہوتی ہے ـ توکل شاہ صاحب کا واقعہ ہے قسم کھا کر کہا کرتے تھے پنجابی زبان میں کہ ذکر وقت میرا منہ میٹھا ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ویسی بات نہ سمھنا بلکہ ایسا میٹھا ہو جاتا ہے جیسے مٹھائی کھا لینے سے - ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت شریعت تو مدون ہے اس کے لیے تو سو سال کے بعد مجدد کی ضرورت ہے اور تصوف کے لیے تو پچاس برس کے بعد ہی ضرورت پڑے گی کیونکہ مدون نہیں اسلئیے اس میں تغیر جلدی ہو سکتا ہے اسلئیے جلدی مجدد کی ضرورت واقع ہو گی ـ فرمایا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ بھی مدون ہو گیا ـ اب صدیوں کے لیے یہ طریق زندہ ہو گیا- واقعہ یہ ہے کہ طریق اصلاح مردہ ہو چکا تھا اب از سر نو زندہ ہوا ہے مگر غیر مجتہد اس کو انجام نہیں دے سکتا تھا ـ حضرت حاجی صاحبؒ اس فن کے مجتہد تھے ان کے علوم سے اس کی حسب ضرورت تدوین ہو گئی پھر فرمایا کہ یہ جو اسرار پر کتابیں لکھ گئے ہیں ان سے زیادہ گڑ بڑ پھیلی ان حضرات کو کیا خبر تھی کہ ایسے بد فہموں کا بھی زمانہ آںے والا ہے ـ سو واقع میں اہل اسرار کی کتابیں اہل اسرار کے لیے ہیں اشرار کے لیے نہیں - فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ یہ فن بالکل صاف ہو گیا لوگوں نے ہوا بنا رکھا تھا حالانکہ آدم ہے اور اس اشاعت کے بعد خواہ تعبیر بھی نہ کر سکے مگر مقصود حاصل ہے کیونکہ مقصود حقائق کا ذہن میں اتر جاتا ہے اگر کوئی شخص اصلاح معدہ کی دوا کھا کر بھول گیا تو بلا سے یاد نہ