ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
کرنا چاہتا ہوں ـ میں نے کہا کہ بڑی خوشی سے مگر معاف کیجئے گا میری بے ادبی اور بے تہذیبی آپ کو تین باتوں پر قسم کھانا ہو گی ـ ایک تو یہ کہ واقعی میرے دل میں شبہ ہے محض تصنیف نہیں کیا گیا دوسرے یہ کہ اس شبہ کا جواب میرے ذہن میں نہیں تیسرے یہ کہ صرف تحقیق مقصود ہے اپنے کسی بڑے کی نصرت مقصود نہیں ان تینوں باتوں پر قسم کھا لیجئے گا پھر جو شبہ ہو فرمایئے ـ حضرت اس سے سب شبہات ختم ہو گئے سمجھے کہ یہ قسم بڑی ٹھیڑی کھیر ہے اپنی ہی جماعت کے ایک بزرگ نے بذریعہ خط مشورہ دیا کہ آپ اصلاح الرسوم پر نظر ثانی فرمائیں میں نے جواب لکھا کہ میں نظر ثانی نظر ثالث نظر رابع سب کر چکا ہر نظر کا وہی نتیجہ نکلا جو نظر اول کا تھا اب آپ اصلاح فرمائیں میں اسکو شائع کر دوں گا لیکن اگر اس سے لوگوں کو ان رسوم میں ابتلاء ہو گیا تو آپ ذمہ دار ہوں گے پھر ان بزرگ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ـ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے تو اس تقریب میں شرکت فرمائی اور فلاح شخص نے ( یعنی میں نے ) شرکت نہیں کی یہ کیا بات ہے جواب میں فرمایا کہ بھائی ہم نے فتوے پر عمل کیا اس نے تقوے پر عمل کیا یہ تو تواضع کا جواب تھا مگر اسی طرح کا ایک صاحب نے حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ سے سوال کیا حضرت نے محققانہ جواب دیا کہ عوام الناس کے مفاسد کی جیسی اس کو خبر ہے ہم کو خبر نہیں ـ حضرت نے حقیقت ہی کو ظاہر فرما دیا ـ ایک صاحب نے آ کر مجھ سے بھی کہا کہ فلاح صاحب نے تمہاری نسبت ایسے ویسے الفاظ بھی کہے اگر آپ چاہیں تو میں نام بھی بتلا سکتا ہوں ـ میں نے کہا کہ نہیں بھائی ! مجھ کو کیوں لوگوں سے بد گمان کرتے ہو اور ایسے موقع پر اکثر یہ شعر پڑھ دیا کرتا ہوں ؎ تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوق ہے برا وہی کہ جو تجھ کو برا جانتا ہے اور اگر تو ہی برا تو وہ سچ کہتا ہے پھر برا کہنے سے کیوں اس کے برا مانتا ہے اور ایسے موقع پر یہ شعر بھی پڑھا کرتا ہوں ؎ دوست کرتےہیں ملامت غیر کرتے ہیں گلہ کیا قیامت ہے مجھ کو سب برا کہنے کو ہیں