ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
اگر اجازت ہو تو میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ میں نے کہا ضرور پوچھئے معلوم ہوگا عرض کر دونگا نہ معلوم ہوگا لا علمی ظاہر کر دونگا ـ اس نے سوال کیا کہ مثلا ود شخص ہیں انہوں نے ایک نیک کام کیا ایک ہی نیت ہے ایک ہی کام ہے اس کام کا ایک ہی نفع ہے ـ فرق صرف یہ ہے کہ ایک فاعل مسلم ہے ایک غیر مسلم ہے تو کیا ان دونوں کو اجر و ثواب برابر ہو گا یا نہیں ؟ میں سمجھ گیا کہ اس سوال سے مقصود اس کا یہ ہے کہ جواب تو یہی ملے گا کہ مسلم کو اجر وثواب ہوگا اور غیر مسلم کو نہ ہو گا ـ اس جواب پر اس کی گفتگو کی گنجائش تھی کہ یہ حکم تو بڑا تعصب ہے حالانکہ اس کا جواب ظاہر تھا کہ اذافات الشرط فات المشروط ' مگر میں نے اتنی بھی گنجائش نہیں دی دوسرے طرز پر جواب دیا چنانچہ میں نے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ آپ ایسے شائستہ اور مہذب اور دانشمند ہو کر ایسی بات پوچھتے ہیں جس کا جواب آپ کو معلوم ہے کہنے لگا کہ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا جواب مجھے معلوم ہے ؟ میں نے کہا کہ اس کے مقدمات آپ کے ذہن میں پہلے سے ہیں اور مقدمات کیلئے مطلوب لازم ہے جب مقدمات کا علم ہے تو نتیجہ کا بھی علم ہے کہنے لگا یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کے مقدمات میرے ذہن میں پہلے سے ہیں ـ میں نے کہا کہ میں ابھی بتاتا ہوں سنیے ! آپ کو معلوم ہے کہ مذاہب مختلفہ سب تو حق نہیں ہو سکتے ضرور ایک ہی حق ہو گا اور باقی سب باطل یہ معلوم ہے آپ کو ؟ کہا کہ جی معلوم ہے ـ میں نے کہا کہ ایک مقدمہ تو یہ ہوا اب یہ بتلایئے کہ صاحب حق مثل مطیع سلطنت کے ہے اور صاحب باطل مثل باغی سلطنت کے ـ یہ آپ کو معلوم ہے کہنے لگا کہ ہاں ـ میں نے کہا ایک مقدمہ یہ ہوا آ گے سنیئے کہ ایک شخص مطیع سلطنت ہے اور ایک باغی سلطنت اور وہ باغی سلطنت ایک بڑا ڈاکٹر ہے جو بڑا ماہر فن ہے انگریزی کی اعلی درجہ کی قابلیت ہے بیدار مغز ہے دنیا میں اس کا ثانی نہیں مگر باوجود ان سب کمالات کے اس میں ایک ایسی بات ہے کہ اسکے یہ سب کمالات گرد ہیں اور وہ باغی ہونا ہے کہ سلطنت سے بغاوت کرتا ہے اس پر گورنمنٹ اس کو پھانسی کا حکم دیتی ہے اس وقت اگر کوئی کہے کہ ہائے بڑا ظلم ہے محض بغاوت کے الزام میں پھانسی کا حکم دیتی ہے حالانکہ یہ شخص ایسا تھا، ویسا تھا ، تو کیا عقلاء کے نزدیک یہ اعتراض