ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
اسی سلسلہ میں فرمایا کہ میں ایک مرتبہ سہارن پور کے سفر کے قصد سے قصبہ کے اسٹیشن پر پہنچا اسی گاڑی سے ایک طالب علم جو دہلی سے آئے تھے اترے مجھ سے ملے اور کہنے لگے کہ میں تو آپ ہی ملنے کو آیا تھا میں نے کہا کہ میں تو اس وقت سہارن پور جا رہا ہوں میری واپسی تک تم تھانہ بھون ٹھہرو ـ اوراگر جی چاہے بشرطیکہ کسی مصلحت کے خلاف نہ ہو تو سہارن پور چلیے میری طرف سے اجازت ہے ـ دونوں شقوں پر عمل آزادی سے کر سکتے ہو اپنی مصلحت دیکھ لیجئے وہ بولے کہ میں سہارن پور ہی چلتا ہوں میں نے کہا کہ ٹکٹ لے لو ـ انہوں نے کوشش بھی کی مگر گاڑی چھوٹنے والی تھی ٹکٹ نہ مل سکا ـ میں نے کہا گارڈ سے کہہ کر سوار ہو جاؤ اسٹیشن نانوتہ پر پہنچ کر میں نے ان سے کہا کہ یہاں تک کا کرایہ دیکر رسید لے لو اور یہاں سے سہارن پور تک ٹکٹ لے لو وہ گئے ٹکٹ مل گیا آ کر کہنے لگے کہ سہارن پور تک کا تو ٹکٹ مل گیا مگر تھانہ بھون سے نانوتہ تک کے ٹکٹ کیلئے گارڈ نے کہا کہ ہم معاف کرتے ہیں ـ میں نے کہا ریل ان کی ملک نہیں ان کی حیثیت نوکر کی ہے انکو کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ معافی معتبر نہیں کرایہ ادا کرنا واجب ہے اور میں نے ان کو ادا کرنے کا طریقہ بتایا کہ تھانہ بھون سے نانوتہ تک کا ٹکٹ لے کر چاک کر دیا جائے یہ صورت سہل بھی ہے اور مالک کے قبضہ میں بھی پہنچ جائے گا اسی ڈبہ میں چند آریے بھی سوار تھے کہیں اوپر سے آ رہے تھے ان میں ایک انگریزی داں اور لیکچرار تھا اس نے جو یہ بات سنی کہنے لگا کہ میں اپنی ایک کمزوری بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ جب میں نے یہ سنا کہ ان کو معافی دیدی اور ٹکٹ کے دام نہیں لئے تو میں خوش ہوا کہ ایک غریب آدمی کا بھلا ہوا پیسے بچے مگر تمہاری تقریر سے معلوم ہوا کہ میری یہ خوشی بے ایمانی کی خوشی تھی ـ میں نے کہا کہ یہ آپ کی خوبی کی بات ہے کہ آپ نے محسوس فرما لیا پھر میں اپنے ہمراہیوں سے ہر طرح کی باتیں کرنے لگا تو وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ معلوم نہیں ان لوگوں کی معملولی باتیں میں دل کو اتنی کشش کیوں ہوتی ہے ایک نے جواب دیا کہ یہ ان کے سچے ہونے کی علامت ہے سچ میں خاصیت ہے کہ اس طرف کشش ہوتی ہے ـ اب اس لیکچرار آریہ کا ـ اور گفتگو کرنے کو جی چاہا مجھ سے کہنے لگا کہ