ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
تصرف سے کچھ دیدیں گے تو لوں گا میں خود کچھ نہ کروں گا ـ شیخ کو اس کی اطلاع ہوئی یا تو کسی کی اطلاع کرنے پر یا بذریعہ کشف انہوں نے صاف کہہ دیا کہ تم خود ہی کرو گے تو کچھ ہوگا اور تصرف کا اثر نہ ضروری ہے نہ دیر پا ہے مرید کو وسوسہ ہونے لگا کہ شیخ صاحب تصرف نہیں ہیں اس لئے تا ویلات کرتے ہیں شیخ کو اس کی بھی اطلاع ہوئی انہوں نے علمی جواب دینا چاہا اس شخص سے فرمایا کہ ایک مٹکا پانی کا بھر کر خانقاہ کے دروازہ پر رکھو اور ایک پچکاری مول لا کر ہم کو دو چنانچہ ایس کیا گیا ـ شیخ دروازہ پر پچکاری لے کر بیٹھ گئے جو شخص گزرتا پچکاری بھر کر اس پر پانی پھینکتے تھے ـ جس پر شیخ کی پچکاری کی ایک چھینٹ بھی پڑ گئی وہی اشھد ان لا الہ الااللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ پڑھنے لگا ـ ایک ہی تاریخ میں اپنے تصرف سے شیخ نے ہزاروں کافروں کو مسلمان بنا دیا ـ پھر اس شخص کو بلا کر فرمایا کہ دیکھا شیخ کا تصرف مگر تجھ سے چکی ہی پسواؤں گا یا تو پیسو اور نہیں تو منہ کالا کرو ـ تب اس شخص کی آنکھیں کھلیں اور اپنی اس حرکت پر ندامت ہوئی توبہ کی اور کام میں لگ گئے ـ بغیر طلب کچھ نہیں ہوتا ـ طلب ضرور دیکھی جاتی ہے ـ پھر جب طلب ہے تو فرمائشیں کیسی بعد طلب جب عاجز ہو جاتا ہے اس وقت رحم آتا ہے اور اس وقت عنایت سے کام بن جاتا ہے ـ یہ مضمون ایک مثال سے سمجھ میں آ جائے گا مثلا ایک بچے کو جس نے ابھی چلنا نہیں سیکھا اس کو ایک پچاس قدم کے فاصلہ پر کھڑا کر کے باپ دور سے اسکی طرف ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے کہ بیٹا آؤ ـ حالانکہ باپ جانتا ہے کہ یہ ان پچاس قدم کو اس حالت میں جبکہ یہ چلنا بھی نہیں جانتا ـ پچاس برس میں بھی طے نہیں کر سکتا مگر اس رغبت اور طلب کا امتحان مقصود ہے اس کے ہاتھ بڑھانے پر بچے کے اندر ایک حرکت پیدا ہوئی اور اس طرف بڑھا اور گر پڑا محض اس طلب اور رغبت پر باپ کا دل رہ نہ سکا دوڑ کر گود میں اٹھا لیا ـ اسی طرح حق تعالی کا معاملہ بندے کے ساتھ ہے کہ جو ان کی راہ پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے بجوائے لنھدینھم سبلنا وہ آغوش رحمت میں لے لیتے ہیں اور اس دشوار گزار راہ کو آن واحد میں طے کرا دیتے ہیں مگر یہ حرکت تو شروع کرے گو وہ حرکت قطع مسافت میں کافی نہیں کیونکہ