ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
ہو کر چلے اور منزل ختم ہوئی تو ایک گٹھڑی سامنے لا رکھی دریا فت کیا کیا ہے عرض کیا دیکھ لیجئے کھول کر دیکھا کھول کر دیکھا تو گھوڑے کی لید ـ پوچھا یہ کیا ـ وہی فہرست سامنے رکھ دی کہ دیکھئے اس میں یہ لکھا ہے کہ جو چیز گرے اٹھا لو ـ سو ایسی بد فہمی کا کیا علاج ـ فرمایا کہ میں بعضوں کو یہاں رہتے ہوئے مکاتبت و مخاطبت سے منع کر دیتا ہوں پھر اگر وطن پہنچ کر خط و کتابت کریں اور مجھ کو خط و کتابت سے معلوم ہو جائے کہ سلیقہ پیدا ہو گیا تو مجھ کو ضد تھوڑا ہی ہے اجازت دیتا ہوں کہ یہاں آ کر بھی خط و کتابت کر سکتے ہیں ـ مقصود میرا ان لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے کہ طبیعت پر سمجھنے سوچنے کا بوجھ پڑے فکر اور غور کی عادت ہو ـ دوسرے کو جو اذیت یا کلفت ہوتی ہے وہ بے فکری سے ہوتی ہے اور میرا عقیدہ تو وہ ہے جو حضرت حاجی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ آنے والے حضرات کے قدموں کی زیارت کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں کیونکہ میرا تو کسی دلیل سے بھی اچھا ثابت نہیں اور میرے پاس آنے والے اللہ کا نام لینے آتے ہیں یہ یقینا اچھے ہیں آہ ـ بھلا جس شخص کا یہ عقیدہ ہو وہ آنے والوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھ سکتا ہے یا ایسا شخص کسی کے آنے سے گھبرائے گا ـ ہاں یہ ضرور ہے کہ رعایت اس کی کیجاتی ہے جو اپنی بھی رعایت کرے اور یہ جو لوگ سفارش کراتے ہیں یہ خود دلیل ہے کام نہ کرنے کی کہ خود کچھ کرنا نہ پڑے ایسا شخص اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالتا ہے اور خود پلکا رہتا ہے اس سے طلب کا کم ہونا معلوم ہوتا ہے بڑی سفارش تو طلب ہے لوگوں کوعادتیں پڑی ہوئی ہیں ان کو چھوٹنا بڑا ہی مشکل ہے نہ اپنی تکلیف کا احساس نہ دوسروں کی ـ کہاں تک ان کی بے پرواہی اور بے فکری کی اصلاح کی جائے ـ فرمایا کہ عادت پر ایک حکایت یاد آئی یہاں پر ایک صاحب تھے برادری کے تھے ان کی عادت برادری کو گالیاں دینے کی تھی اتفاق سے ان کے یہاں شادی ہوئی اہل برادری ان کی اس حرکت سے ناراض تھے سب نے اتفاق کیا کہ کوئی ان کے یہاں شریک نہ ہو ان حضرت کو معلوم ہوا کہنے لگے کہ اب کبھی گالیاں نہ دیا کروں گا لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم یوں تو اعتبار نہ کریں گے ـ شاہ