ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
طریق بہت ہی نازک ہے ـ ہزروں سرمار کر بیٹھ گئے ، مگر منزل مقصود تک رسائی نہیں ہوئی اس میں رہبر کامل کی ضرورت ہے بغیر اس کا دامن پکڑے ہوئے اس راہ میں قدم رکھنا خطرہ ہی خطرہ ہے دیکھئے مثال سے کسی قدر سمجھ میں آ جائیگا ـ ایک انسان ہے عالم ہے محدث ہے مفسر ہے ، فقیہ ہے مجتہد ہے حافظ ہے قاری ہے نیک ہے حسین ہے تندرست ہے اور باوجود اس کے اس کو کسی کمال پر نظر نہ ہو کیا یہ سہل بات ہے البتہ جو کمالات اس کو عطا ہوئے ہیں ان پر خوش ہونا یا ان کا اقرار یہ بری بات نہیں لیکن ان کمالات کی بناء پر غیر اہل کمالات کی تحقیر کرنا یہ ہے نظر مذموم ـ اسی طرح یہ بھی نظر مذموم ہے کہ میں ان کمالات کی وجہ سے خدا کے نزدیک مقبول ہو گیا کیا خبر ہے ، مقبولیت وعدم مقبولیت کی لا تقف مالیس لک بہ علم ـ حضرت ممکن ہے کہ یہ تو سمجھ رہا ہے کہ میں مقبول ہوں اور وہاں مردود ہے اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک عورت ہے جو خوب صورت بھی ہے لباس فاخرہ بھی ہے زیور سے بھی آ راستہ ہے ، سنگار کئے ہوئے ہے ، اور اس آرائش و زیبائش کی بناء پر سمجھتی ہے کہ میرا خاوند مجھے چاہتا ہے ـ مگر ساتھ ہی گندہ ذہنی میں مبتلا ہے اس لئے خاوند اس کی صورت دیکھنے کا بھی روا دار نہیں ـ اور ایک عورت ہے سانولی ـ کپڑے بھی میلے کچیلے زیور بھی اس کے پاس نہیں ـ مگر اس کی کوئی ادا خاوند کو پسند ہے وہ اس کو محبوب رکھتا ہے دل سے چاہتا ہے فرمائیے ! ان دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں ـ یہ ہی مثال ہمارے کمالات کی ہے تو جس طرح گندہ ذہن عورت اپنے خاوند کی نظر میں مقبول ہونے کے غلط گمان میں مبتلا ہے یہی حالت کمالات کی بناء پر ہمارے گمان کی ہے ـ حاصل یہ ہے کہ یہ ظاہری کمالات دلیل مقبولیت کی نہیں ـ ممکن ہے کہ ہمارے اندر کوئی ایسی باطنی خرابی ہو جو میاں کو نا پسند ہو ـ فرمایا کہ باطنی خرابی کی شان کے متعلق کیا عرض کروں جو دل میں ہے کس طرح دوسروں کے دل میں ڈال دوں بعض اوقات سالک کی یہ حالت ہوتی ہے کہ باوجودیکہ یقین کے ساتھ یہ سمجھ رہا ہے کہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا اور میرا دعوی ہے عبدیت کا ـ وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنے کا مستحق ہے اور جنت میں رہنے کا امیدوار ـ اسلئے کہ امید تو