سے ہی آئندہ جمعہ کی تیاری اور مواد کی ترتیب و تنقیح میں مصروف رہتے تھے نیز آپ کی خطابت اور تقریر کی سب سے ممتاز اور انوکھی اور نرالی خصوصیت یہ تھی کہ شہر گلستان میں حالات کشیدہ ہوں یا حسب معمول حالات میں تناؤ ہو یا خوشگوار ہمیشہ مفصل و مدلل تقریر فرماتے۔ حدیث پیش کرتے تو اس کے پورے عربی الفاظ جوں کے توں نقل فرماتے۔ یہ نہ ہوتا کہ ’’حدیث میں آتا ہے ‘‘ کہہ کر اردو میں حدیث کا خلاصہ پیش کردیں ۔ کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن منبر ومحراب سے وابستگی رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ الفاظ حدیث کو جوں کا توں یاد کرکے پیش کرنا کس قوتِ حافظہ کا متقاضی ہے ۔
شہر میں کبھی بریلوی حضرات کا کبھی غیر مقلدین کا کبھی کچھ کبھی کچھ اکثر مساجد میں خطیب ۔حضرات ایک دوسرے پر برس رہے ہوتے ہیں مگر حضرت ؒ قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر فرماتے حدیث پاک( مکمل باحوالہ عربی عبارت کے ساتھ تلاوت کرتے ہوئے )کی دلنشین تشریح فرماتے تھے ۔ تقریر و خطابت ایسی ممتاز تھی کہ سامعین کے دلوں میں آپ کی بات اثر کرجاتی تھی اور حاضرین کے قلوب میں نقش چھوڑ جاتی تھی ’’اور از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کا مکمل مصداق تھی ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
حضرت کبھی مسجد میں چیخنا چلانا اور مسجد میں تقریر میں شور و شغب کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔ مکمل سکون اور طمانینت کے ساتھ تقریر رواں دواں رہتی تھی ۔ اول تا آخر ہر لفظ کے تلفظ کا دل کش انداز ہوتا ۔ آواز میں ایسا جذب کہ سامع کے دل میں گویا ہر حرف کا یکساں عمدہ اثر قلوب پر مرتسم ہوتا ۔ کئی آفیسروں کو میں نے دیکھا کہ جب تک وہ جامع مسجد