آپ کو جب آل انڈیا مسلم پرنسل لا ء بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا تو آپ نے بورڈ میں سارے مسلکوں کے علماء کو جمع کرکے ملک کے پیچیدہ حالات کا جائزہ لیا اور شہر گلستان بنگلور میں جب آل انڈیا مسلم پرنسل لاء بورڈ کا جب جلسہ ہوا تو آپ نے بذریعہ میڈیا آر ایس ایس کے سربراہ سدرشن کو بڑے پیارے انداز میں اسلام کی دعوت دی۔
قاضی صاحب جب بھی دارالسرور بنگلور تشریف لاتے تو مادر علمی دارالعلوم سبیل الرشاد میں آپ کا قیام رہتا تھا۔راقم الحروف حضرت کی خدمت میں جاکر دارالقضاء سے متعلق جو کوئی اشکال پیش کرتا ، حضرت چٹکیوں میں اس کا حل بتا دیتے ۔ آپ کا قوتِ حافظہ بڑے غضب کا تھا ، کتب فقہ کی عبارتیں اس طرح از بر تھیں ۔معلوم ہوتا تھا کہ دیکھ کر پڑھ رہے ہیں ۔ آپ کو رئیس العلماء شاہ ابوالسعود احمد صاحب نور اللہ ضریحہ سے بڑی والہانہ عقیدت ومحبت تھی۔ آپ ؒ کی بڑی عزت فرماتے ، اسی طرح مادرِ علمی دارالعلوم سبیل الرشاد کے فارغین سے بھی آپ کو بڑی محبت تھی ۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ قاضی صاحب دارالعلوم سبیل الرشاد آئے ہوئے تھے ، اور کافی علیل تھے ۔ فارغین میں سے کسی نے حضرت قاضی صاحب کی خدمت میں حضرت امیر شریعت ؒ کی وہیل چیئر پیش کی تو آپ نے اس پر بیٹھنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ حضرت امیر شریعت جس کرسی پر بیٹھتے تھے ، اس پر میں کیسے بیٹھ سکتاہوں ۔ اس طرح کہہ کر بیٹھنے سے بالکل معذرت کرلیے۔
آپ اپنے بیرونی اسفار میں رشادی علماء سے ملاقات ہوجاتی تو بڑی مسرت کا اظہار کرتے اور مختلف جلسوں میں برملا اس کا اظہار کرتے ۔ آپ کی ظاہری شخصیت کو کوئی اجنبی دیکھتا تو یوں سمجھتا کہ شاید کوئی طالب علم ہیں یا عام آدمی ہیں ، مگر جب آپ بولنے