کتاب پڑھانا شروع کرتے اور کتاب کی عبارت کو کاپی کی مثالوں سے اس طرح سمجھاتے کہ بات سیدھی دل میں گھستی چلی جاتی۔
اسی کے ساتھ آپ ایک متدین عامل بھی تھے۔ ہند وبیرونِ ہند آپ نے قرآنی عملیات کے ذریعے سے بہت سے پریشان حالوں کو اطمینان دلایا ، نیز بہت سے خواہش مندوں نے آپ سے عملیات کی تعلیم حاصل کی ہے ۔ عملیات کے سلسلے میں آپ احکامِ شرع کا خاص لحاظ کرتے، نمونے کے طور پر ایک چھوٹا سا واقعہ جسے خود آپ نے بیان کیا تھا نقل کرتا ہوں کہ ایک دفعہ ایک عورت حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے ، آپ جو فیس لینا ہے لیجیے مگر ایسا عمل کریں کہ اس عورت کی محبت میرے شوہر کے دل سے نکل جائے ۔ حضرت نے فرمایا’’ ایسے ہم نہیں کرتے ، البتہ اگر چاہو تو ایسا عمل کریں کہ تمہارے شوہر تم کو بھی چاہنے لگیں اور تمہارے حقوق بھی ادا کرنے لگیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت میران صاحب کو روپیوں پیسوں سے خوب نوازا تھا۔ مدرسے سے ملنے والی تنخواہ آپ کی ماہانہ آمدنی کا عشر عشیر بھی نہ ہوگی۔ لیکن آپ کے دل میں ہمیشہ یہ احساس رہتا جس کا آپ نے کسی موقع سے اظہار بھی کیا تھا کہ مدرسہ اور مدرسہ کی تنخواہ ہی اصل ہے ۔ اللہ نے جو کچھ دیا ہے اسی مدرسے کی برکت سے دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وصولِ مشاہرہ کے وقت آپ ہمیشہ اول نمبر پر حاضر رہتے۔
یہ سن ۲۰۰۲ کی بات ہے ، حضرت میران صاحب نے رمضان کی چٹھیوں میں بیرونی ممالک کے دورہ اور واپسی میں عمرے کے ارادے سے نکلے۔ دورہ مکمل کرکے آپ نے عمرہ فرمایا ، مطاف میں آپ یادِ الٰہی میں مصروف بیٹھے تھے کہ اچانک فرشتۂ اجل آپہنچا اور آپ خوشی خوشی بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوگئے ۔ آپ کی حیاتِ طیبہ بھی نہایت مبارک تھی ، موت بھی نہایت