’شیرینی ‘ ان لوگوں کو اور میٹھا محسوس ہوگا جنہوں نے حضرت کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے درس لیاہے ۔ یہ’ شیرینی ‘کئی اعتبار سے تھی ، شیرینی اس اعتبار سے بھی کہ حضرت متعلقہ کتاب کا مضمون اس آسانی سے طلبہ کے ذہن نشین کرادیتے کہ کند ذہن سے کند ذہن طالب علم بھی سبق بآسانی سمجھ جاتا اور شیرینی اس اعتبار سے بھی کہ حضرت دورانِ درس اپنے عجیب وغریب واقعات سناتے ، جس سے در س کی لذت دو چند ہوجاتی، شیرینی اس اعتبار سے بھی کہ حضرت طلبہ سے ہفتہ میں ایک بارایک ہزار بار درود شریف جَزَا اللّٰہُ عَنَّا مُحَمداً بِمَا ھُوَ اَھْلُہُ پڑھوا کراپنے صرفہ سے بہترین’ شیرینی ‘ تقسیم فرماتے، تقسیم شیرینی سے قبل حضرت اجتماعی دعا فرماتے ، آپ کی دعا کا ایک خاص انداز تھا، آپ خدا سے ایسا مانگتے جیسے کوئی شخص اپنے سامنے موجود دوست سے اپنی ضرورت کی چیزیں بلا تکلف مانگتا ہے ۔فرماتے ’’ اے اللہ مجھے یہ چاہیے ، یہ چاہیے ، جلدی بھیجو، دیری مت کرو، جلدی بھیجو‘‘ ہم طلبہ کو کبھی حضرت کے اس طرز دعا سے ہنسی بھی آتی مگر حضرت کسی کی ہنسی کی پرواہ کیے بغیر استغراق کے عالم میں اپنے خدا سے بے تکلفانہ مانگتے چلے جاتے۔
آپ کی ذات ایک مرنجاں مرنج صفات کی حامل تھی، آپ ایک ماہر مدرس تھے ، خصوصاً جن شاگردوں نے آپ کے پاس تقسیم ترکہ کی کتاب ’’ سراجی‘‘ پڑھی ہے وہ تقسیمِ ترکہ کے شرعی حسابات بآسانی حل کرلیتے ہیں ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ حضرت کا ’’ سراجی ‘‘ پڑھانے کا ایک منفرد انداز تھا۔ حضرت نے اپنے ذاتی تجارب اور شب وروز کی محنت سے ایک کاپی تیار کی تھی جس میں تقسیم میراث کی فرضی مثالیں جمع کی تھیں ، آپ پہلے اپنی کاپی طلبہ کو دے کر انہی اس کی مثالیں اپنی کاپیوں میں ہو بہو نقل کرنے کو کہتے ،جب طلبہ حضرت کی کاپی سے ساری مثالیں اپنی کاپیوں میں نقل کرچکے ہوتے تو حضرت اب