اساتذہ کے دروس وغیرہ آپ کی اجازت سے طے ہوتے۔ ایک دفعہ مدرسے کے طلبہ میں آپس میں کسی بات پر سخت جھگڑا ہوگیااور سارا ماحول گرم ہوگیا۔ منتظمین پریشان تھے کہ اس معاملے کو کیسے سلجھائیں ، ایسے نازک وقت میں ’’ چھوٹے حضرت‘‘ نے ہمتِ مردانہ سے کام لیتے ہوئے ، دونوں متحارب گروپ طلبہ کو بلایا ، اور ایک ہنگامی مجلس طے کرکے دونوں فریق کو اپنے اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع دیتے ہوئے معاملہ کو حل فرمایا اور مصالحت کراکر ہی دم لیا۔ ممکن ہے آج یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے مگر جو لوگ اس وقت موجود تھے یا جنہیں ایسے حالات سے سابقہ پڑا ہو وہ ان الفاظ کا وزن ضرور محسوس کریں گے ۔
طلبہ کے ساتھ آپ کا تعلق ایک شفیق باپ جیسا تھا۔ طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ بدن کی تندرستی کی طرف خاص توجہ دلاتے ، بعضوں کو لاٹھی چلانا بھی سکھایا،اللہ نے آپ کو دولت وثروت سے بھی نوازا تھا، اسی کے ساتھ ساتھ آپ جود وسخا میں حاتمِ وقت تھے۔ طلبہ پر ہمیشہ مہربان رہتے اور ان کی مدد فرمایا کرتے ، خصوصاً عاشورے کے دن طلبہ کی دعوت کرنا آپ کا عمر بھر کا معمول رہا، الحمد اللہ آپ کے فرزندنے آپ کے بعد بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا ہے ۔
اخیر عمر میں جب کہ بدن بھاری ہوگیا تھا اور چلنے پھرنے میں کافی دقت محسوس کرتے تھے ، اس کے باوجود پابندی وقت کے ساتھ مدرسہ تشریف لاتے اور متعلقہ کتابوں کا نصاب مکمل فرماتے ۔ انگریزی دواؤں کے مقابل آپ یونانی دواؤں کو زیادہ ترجیح دیتے ۔ آپ خود یونانی طب کے ماہر اور حکیم تھے ۔ پریشان حال طلبہ کبھی حاضر ہوتے تو آپ ان کی تشخیص کرتے ہوئے دوائیں دیتے تھے ۔ الحمد للہ طلبہ کو ہمیشہ فائدہ ہوا۔
بالآخر ایک دیڑھ ماہ کی مختصر علالت کے بعد مورخہ چوبیس اگست ۲۰۰۴ کوجب