’’ حضرت فلاں مقام پر میں نے اہل محلہ کی کوشش سے مسجد کی تعمیر کا بندوبست کیا ہے ، آپ سنگِ بنیاد رکھ دیں ‘‘
’’ حضرت ! تعمیر مسجد کا کام پورا ہوچکا ہے ، آپ افتتاح فرمادیں ‘‘
’’حضرت میں نے فلاں مسجد میں مکتب شروع کیا ہے ، آپ بسم اللہ خوانی کرادیں ‘‘
’’حضرت میں نے ایک مدرسہ شروع کیا ہے آپ دعا فرمائیں ‘‘
بس اسی طرح کے کوئی رشادی عالم تھے جو یہ کہہ رہے تھے :
’’ حضرت میں ایک مدرسہ شروع کرنا چاہتا ہوں ‘‘
یہاں واقعے میں آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ خیال بھی ضرور کر لینا چاہیے کہ یہ آج کل کا زمانہ نہیں تھا کہ مدارس کی کثرت کے باوجود استقبال مدارس ہے ۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب مدرسہ شروع کرنے کا مطلب عیش وراحت کو قربان کرکے تنگی و جفا کشی کو گلے لگانا تھا ۔جو لوگ مدارس اور اس کے ماضی و حال سے واقف ہیں وہ میرے اس تجزیہ کی ضرور تائید کریں گے۔
بڑے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جب مولوی صاحب نے کہا کہ وہ ایک مدرسہ شروع کرنا چاہتے ہیں ۔ بڑے حضرت مسکرائے ، فرمایا :’’اللہ کی ذات سے ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اللہ سے مدد مانگو‘‘
’’مانگتا تو ہوں حضرت ‘‘ مولوی صاحب نے کہا ۔
لیکن مانگنے مانگنے میں بڑا فرق ہے ، اور مانگی جانے والی چیزیں بھی الگ الگ۔
چیز چھوٹی ہو تو مانگ چھوٹی ہوتی ہے ۔
چیز بڑی تو مانگ بڑی ۔
اور مانگنے کا ڈھنگ بھی الگ۔
بڑے حضرت ؒ کو مانگی جانے والی چیز کی عظمت کا خیال تھا۔ فوراً فرمایا: