بلا شبہ جانوروں پر رحم کرنا ضروری ہے ، اسلام میں اس کا سختی سے حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ایک موقع پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایاکہ یا رسول اللہ ، کیا ان جانوروں کے سلسلے میں بھی ہمارے لیے اجر وثواب ہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہر ایک تر جگہ میں تمہارے لیے اجر ہے ۔ (بخاری ومسلم) یعنی جس کسی میں شعور اور حس پایا جاتا ہے خواہ وہ جانور اور چوپایا ہی کیوں نہ ہو ، اس کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اسے بلا وجہ تکلیف پہنچانا جائز نہیں ۔ بلکہ اس کے ساتھ رحم دلی سے پیش آنا اللہ کو پسند ہے اور اس پر وہ لوگوں کو اجر وثواب مرحمت فرماتا ہے ۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک عورت دوزخ میں ایک بلی کی وجہ سے ڈالی گئی اس نے اسے باندھے رکھا تھا ، نہ تو اس نے اسے کھانے کو دیا اور نہ کھلا چھوڑا کہ حشرات الارض میں سے کچھ کھالیتی۔ (بخاری ومسلم) معلوم ہوا کہ جانوروں پر رحم کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوکر اجروثواب سے نوازتا ہے اور ان کے ساتھ بے رحمی کا برتاو کرنے پر سخت عذاب میں مبتلا کرتا ہے ۔ مگر جانوروں پر رحم کرنے کے بہانے فطری نظام کائنات اورطبعی طور طریقوں سے ہی بغاوت کردینا یہ کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے ۔
خیر یہ دوسری بات ہے ۔ مگر افسوس اور صد افسوس اس بات پر ہے کہ جانوروں پر ر حم کی بات کرنے والے ان حضرات کو ملک بھر میں انسانی جانوں پرہورہے ظلم واستبداد کا کوئی احساس نہیں ہے ۔ کشمیر کی چھتی سنگھ پورہ سے لے کر چنتا منی کی کمبلا پلی تک بہنے والے انسانی خون کے نالوں پر ان کی نظر نہیں پڑتی۔ ان انسانیت سوز حادثات سے پورا ملک دہل گیابلکہ اقوام متحدہ تک اس کی گونج سنائی دی۔ ہر چھوٹے بڑے نے معصوم انسانی