وقت تک وہ ایک عمدہ معاشرہ قائم نہیں کرسکتی پس احکامات کے نفاذکو آزادی کے سلسلے میں رکاوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آزادی کا تصور صرف ایک آدمی کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا ، اگر آزادی کو فرد واحد پر منحصر کردیا جائے تو اس فرد واحد کی آزادی دوسرے افراد کے لئے آزاری کا باعث ہوگی ، وہ فرد واحد من مانی کرے گا ، قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اس صور ت میں دیگر افراد کی آزادی متأثر ہوگی ۔ معلوم ہوا کہ قوانین شرعی مجموعی حیثیت سے کسی کی آزادی کے خلاف نہیں ہیں ۔
اگر گناہوں پر روک نہ لگایا جائے اور برائیوں کو لگام نہ دی جائے تو انسان خواہشات کا غلام بن جائے گا ، اور خواہشات کی غلامی بھی ایک بڑی وباہے جس سے چھٹکارا پانا اور آزادی حاصل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح جسمانی آزادی حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اسی لئے خواہشات کی غلامی سے روکا گیا اور نفسیاتی طور پر اسلام نے انسانوں کی تربیت کی اور آزادی کی آڑ میں خواہشات کی پیروی کرنے سے روکا گیا ۔
خواہشات کی غلامی سے روکنے کا نظریہ صرف اور صرف اسلام نے کامل طریقے سے پیش فرمایا ، ترقی پسند لوگوں کی سمجھ میں آج تک یہ بات ہر گز نہیں آئی ۔ اسی وجہ سے اظہار رائے کی آزادی کے پردہ میں دوسروں کی تذلیل وتفسیق کا معاملہ گرم ہے ، مثال کے طور پر ہم تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کا نام لے سکتے ہیں ، ایک دنیا کی دنیا ہے جنہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آخر انہوں نے کیا ایسا کام کیا ہے کہ مسلمان ان کے مخالف ہو گئے ہیں ، بس انہوں نے ایک کتاب ہی تو لکھی ہے اور تو کچھ نہیں کیا۔
بات سمجھنے کی ہے کہ اپنے آراء کا اظہار کرنا ہر ایک کے لیے جائز ہے لیکن اظہارِ