ہیں تو ہماری نظر اس بلا اور مصیبت کے بھیجنے والے مالک کی طرف جانی چاہیے ۔ اس لیے کہ اللہ پاک کی مرضی ہی سے عذاب نازل ہوتا ہے اور اللہ ہی چاہے تو بندوں پررحم کرتا ہے ، اور جب مصیبتوں میں ہر شخص ہم سے دور ہوجاتا ہے اور کوئی ہمارا پرسانِ حال نہیں ہوتااورپوری دنیا ہم کو اکیلا چھوڑ دیتی ہے ، اور ساری دنیا ہمیں تنہا اوراکیلا تصور کرنے لگتی ہے ، اس وقت ایک مومن اور مسلمان کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ اس حالت میں بھی وہ تنہا نہیں ، اللہ رب العزت اس کے ساتھ ہے ۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بیماری کے ساتھ علاج بھی پیدا کیا ہے ، موت کے ساتھ زندگی اور غربت کے ساتھ دولت کا وجود بخشا ہے ، اسی طرح مصیبتوں ، آفتوں اور الجھنوں کے ساتھ آرام وراحت ، ہنسی خوشی اور نجات وسلامتی بھی پیدا فرمائی ہے ، جہاں مصیبت ہے وہاں مصیبت سے چھٹکارے کے اسباب بھی ہیں ، جہاں آفتیں ہیں وہیں آفتوں کے سے رہائی کے دروازے بھی ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ مادہ پرست لوگ محض مادی وسائل واسباب کے پیچھے پڑتے ہیں ، جب کہ اہل ایمان ہر ایسے موقع پر ظاہری اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اپنے حقیقی پروردگار کے سامنے دونوں ہاتھ اٹھا کر سلامتی کی راہ پانے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اللہ پاک کی یہ عادت ہے کہ جو شخص سختیوں ، آفتوں ، اور مصیبتوں میں صبر کرتا ہے اور سچے دل سے اللہ پاک پر اعتماد اور یقین رکھتا ہے اور ہر طرف سے کٹ کراسی ایک رب ذو الجلال سے لو لگالیتا ہے ، اور اسی کے فضل کا امیدوار رہتا ہے اور کامیابی میں دیر ہوجانے سے آس نہیں توڑتا، مایوس اور شکستہ دل نہیں ہوتااور امید کا دامن تھامے رہتا ہے ، تو اللہ پاک ضرور اس کی مدد ونصرت فرماتے ہیں ، اور اس کے حق میں آسانی پیدا کردیتے ہیں ، اس لیے مصیبتو ں کے وقت جس کی ضرورت ہے وہ رجوع الی اللہ، کامل صبر، اعمال پر مداومت ، اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ومناجات ہے ۔
مطبوعہ :روزنامہ سالاربنگلورمورخہ28/03/2003،روزنامہ پاسبان بنگلور مورخہ 2/4/2003