دنیا کے اسباب اور مادی چیزیں فنا ہونے والی ہیں ، اور جو شخص ان فانی چیزوں سے رشتہ جوڑتا ہے اسے مایوسی کا شکارہونا پڑتا ہے ، اس لیے دنیا کے مادہ پرست نہ گفتہ بہ حالات میں مایوسی کا شکار ہوتے ہیں ، تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ لیکن ایسے حالات میں اگر کوئی مسلمان مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے تو واقعی یہ تعجب ہی نہیں بلکہ افسوس کا مقام ہوتا ہے ، اس لیے کہ مسلمان کی بنیاد روحانیت پر ہوتی ہے ، اور وہ ایک ایسی غیبی طاقت پر کامل ومکمل بھروسہ رکھنے والااور ایک ایسی ذات پر ایمان رکھنے والا ہوتا ہے جو مختار کل، قادر مطلق، علام الغیوب، ستار العیوب، مالک الکل اور رب العالمین ہے ۔ جب ایک مومن ومسلمان پر کوئی مصیبت کی گھڑی آتی ہے ،غم والم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے ، مصیبتیں اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہیں ، ظالموں کا ظلم حد سے بڑھنے لگتا ہے ، تو اس مومن اور مسلمان کے لیے نجات اور سلامتی کی ایک ہی راہ ہے کہ وہ اپنے سارے معاملے کو اپنے پروردگار کے حوالے کردے ۔ ان حالات میں عموماً لوگ اپنی بے بسی ، بیچارگی پر نظر رکھے ہوتے ہیں ، اور ناامیدی کی ظلمتوں میں جاپڑتے ہیں ، جب کہ ایک مومن کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان حالات میں اپنی کمزوری پر نہیں بلکہ اپنے رب ذوالجلال کی بے حد وحساب قوت وقدرت پر نظر رکھے اور یہ فیصلہ کرلے کہ ہر چیز اللہ پاک کی طرف سے ہوتی ہے ۔ وہ یہ سوچے کہ اگر مجھ پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا ہے تو اس میں اللہ پاک کا ارادہ شامل ہے ، یہ میرا ایمان ہے کہ میں اللہ پاک کے ارادے کے بغیر مصیبت کا شکار نہیں ہوسکتا۔ جس کے ارادے سے مجھ پر مصیبت آئی ہے وہ میرے مصائب سے پوری طرح باخبر ہے ۔
جب کسی مسلمان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اسے یہ یقین ہونا چاہیے کہ میری یہ مصیبت اسی وقت ٹل سکتی ہے جب میرا پروردگار اس کو ٹال دے ۔ اور جب دنیا میں کوئی عذاب اور اللہ پاک کا کوئی قہرکسی ناگہانی صورت میں نازل ہونے لگتا ہے اور کوئی بلا اترتی ہے اور حالات دگرگوں ہوجاتے