کررہے تھے ‘‘انہوں نے ہمت کی اور کہا’’ کچھ نہیں میں اذان دے رہا تھا‘‘۔
’’اذان‘‘ گو عملی طور پر فرض نہیں ، اس کا شمار سنن میں ہوتا ہے ،مگر اذان شعائر اسلام اور اسلام کی نشانیوں میں داخل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین صحابہ کو حکم دے رکھا تھا کہ ’’جب کسی بستی پر حملہ کرنا ہو تو پہلے اس بستی کے باہر رک کر وقتِ اذان کا انتظار کرو۔ اگر بستی سے اذان کی آواز آئے تو وہ مسلمانوں کی بستی ہوگی اذان کی آواز نہ آئے تو اس بستی والوں پر حملہ کردو‘‘۔(طحاوی)
حضور اکرم ﷺ نے ابومحذورہ سے فرمایا ’’اچھا اب اذان دو ‘‘ انہوں نے دھیمی آواز میں کہا اللہ اکبر اللہ اکبر آپ ﷺ نے فرمایا ’’زور سے کیوں نہیں کہتے ‘‘ انہوں نے زور سے کہا اللہ اکبر اللہ اکبر (جیسے موذن اذان میں کہتا ہے) آپ نے فرمایا …’’اچھا آگے کہو‘‘
اذان میں اس کے بعد اشھد ان لا الہ الا اللہ ہے اس کا اقرار گویا توحید کا اقرار ہے ابومحذورہ نہ ہی اتنے چھوٹے بچے تھے کہ توحید کے مفہوم سے نا آشنا ہوتے نہ ہی ہماری طرح عربی زبان سے ناواقف ۔ بہر حال حضور ﷺ کے اصرار پر دھیرے دھیر ے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ ۔ حضور نے فرمایا زور سے کہو۔ انہوں نے زور سے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ ۔
حضور ﷺ نے فرمایا ’’آگے بڑھو‘‘۔ آگے’’اشھد ان محمدا رسول اللہ تھا …یہ تو اصل نزاعی مسئلہ تھا… اسلئے کہ توحید کے قائل کسی نہ کسی درجے میں تو سارے اہل عرب ہی تھے، بالکل انکار کسی کو نہ تھا ،کہتے تھے ،خالق ومالک توایک ہی ہے، البتہ اس نے اپنا فلاں اختیار فلاں کو دے رکھا ہے اور فلاں فلاں کو ۔کوئی بارش کا خدا ہے تو کوئی آگ کا ، کوئی روزی کا ہے تو کوئی اولاد کا ۔ اسی لئے جب مشرکین مکہ حج کو جاتے تو ان کا تلبیہ ہوتا لبیک اللھم لبیک لا شریک لک الا شریکا ہو لک ’’اے اللہ میں تیرے پاس حاضر ہوں ۔ تیرا