کانٹوں کے بستر پر زندگی گذار رہی ہے ۔ والدین بھی پوری طرح تحقیق کیے بغیر فوراً لڑکے والوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردیتے ہیں ، اور اکثر بلا وجہ لڑکے کے خلاف جہیز ہراسانی کے کیس درج دفعہ چار سو اٹھانوے ،اے کے تحت درج کرادیتے ہیں ۔ لڑکا پریشان ہوکر کسی وکیل کے پاس جاتا ہے تو وہ ایڈوکیٹ صاحب دونوں فریق کو بلاکر دونوں کی پوری بات سننے کے بجائے یک طرفہ صرف لڑکے کی بات سن کر بیک وقت تین طلاق والاطلاق نامہ جاری کردیتے ہیں ، نہ مہر ادا ہوتا ہے اور نہ نفقۂ عدت اور نہ ہی اس عورت کا ساز وسامان واپس لوٹایا جاتا ہے ۔ بس طلاق نامہ روانہ کرکے کسی دارالعلوم یامفتی صاحب سے فتویٰ حاصل کرکے اپنے موکل کو اطمینان دلا دیتے ہیں کہ تمہارا کام ہوگیا۔ لڑکا وقتی طور پر خوش ہوجاتا ہے ، لیکن جیسے ہی وہ ہوش میں آتا ہے ، واویلا مچاتا پھرتا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ایڈوکیٹ صاحبان دونوں فریق کو بلا کر بات کرنے اور فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں ، مگر ایسے معاملات جب مسلم ایڈوکیٹس کے پاس آئیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کو شرعی دارالقضاء کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کریں ، مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے کے بعض افراد کو تو ا س ادارے (شرعی دارالقضا) کے وجود کی بھی خبر نہیں ہے ۔
بہر حال اگر ایڈوکیٹ صاحبان کو طلاق نامہ روانہ کرنا ہی ہوتو بہتر طریقہ یہ تھا کہ اسلام میں طلاق کا جو شرعی طریقہ ہے ، اس کو استعمال کرتے اور قسط وار طلاق نامہ جاری کرتے، مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک ہی وقت تینوں گولیاں چلا دیے ، یہ سراسر غلط ہے اور ناپسندیدہ طریقہ ہے ۔ اس لیے ایڈوکیٹ حضرات سے گذارش ہے کہ ایسے معاملات کو دارالقضاء روانہ کریں تو دونوں فریق کو بلا کر دونوں کے باتیں سن کر فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔اگر