اور یہ مل جائے توکچھ نہ ہوتے ہوئے بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کو سب کچھ مل گیا گھرکاآرام مل گیا ، سکھ کی نیند مل گئی اور ایسی شریک زندگی مل گئی ۔ مرد کو یہ عظیم نعمت عورت (بیوی) سے ملتی ہے اسی لئے مردوں کو سمجھایا گیا کہ ہم نے تمہارے جوڑے کو تمہاری ہی جنس سے بنایا تاکہ تم عورت کے وجود کے ساتھ غربت واجنبیت محسوس نہ کرو اور اس کے سراپامیں تمہارے لئے سکون رکھ دیاکہ یہ دولت تم کو بیوی سے ملے گی۔اس رنج بھری دنیا میں دکھ درد سے بھری زندگی میں افسردگی ومایوسی کے عالم میں سکھ چین چاہتے ہوتو صنف لطیف جس کو ہم نے تمہارے ساتھ جوڑ دیا ہے اور رفیقۂ حیات بنادیا ہے اس کے وجود میں تم کو سکون وقرار مل جائے گا اور ساری کلفت دور اور سارا غم غلط ہوجائے گا۔
بیوی رنج وغم کی ساتھی: قرآن مجید نے میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور فطری ضرورتوں کی تکمیل کے لئے جو طرز تعبیر اور عنوان اختیار کیا ہے وہ بہت ہی جامع اور نہایت مہذب اور پاکیزہ ہے ۔’’ وہ عورتیں تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو‘‘( سورۂ بقرہ پارہ ۲ رکوع ۶ )
لباس جس طرح ہر مرد اور عورت کے لئے بنیادی ضرروت ہے اسی طرح مرد اور عورت بھی باہم بنیادی ضرورت ہیں ۔اللہ تعالی نے مرد اور عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے نکاح کا طریقہ رکھا ہے جس کے ذریعے صرف جنسی خواہشات کی تکمیل نہیں ہوتی بلکہ زندگی کی تکمیل ہوتی ہے دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد وغم خوار دکھ سکھ کے ساتھی ہوجاتے ہیں اور انس ومحبت لطف ورحمت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ دونوں کا آپسی تعلق شریک رنج وغم عیش وراحت کا ہو وقتی نفع ونقصان کانہ ہوساتھ ہی اس طرف بھی متوجہ کرنا ہے کہ لباس چونکہ پردہ پوشی اوررازداری کے لئے