تھا۔ جن کی سربراہی کعب بن اشرف جیسے لوگ کررہے تھے ۔ دوسری جماعت بغلی چھرا بنی ہوئی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوکر بظاہر مسلمان بن کر مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ورغلانے کاکام کررہی تھی ۔ ان منافقوں کی سربراہی اُبی بن سلول کررہا تھا۔ جو آج تک منافقوں کے سردار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف مشرکین مکہ سے میدانِ جنگ میں لوہا لینا پڑرہا تھا ، یہودیوں کی سازشوں کا بھی ہر وقت سامنا تھا اور دوسری طرف منافقوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی ہر وقت سابقہ تھا۔ تو یہ ابتدائی تین دفاعی محاذ تھے جن سے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت اپنی اعلیٰ ترین بصیرت وتدبیر اور خدائی اعانت ونصرت کے ساتھ نمٹ رہے تھے۔
چوتھا رخ حیات اقدس ﷺ کا اشاعت اسلام کا اہم ترین فریضہ تھا جس کی ادائیگی صرف عرب کے قبیلوں تک محدود نہیں تھی بلکہ ایک عالمگیر مذہب کے داعی کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بیرونِ عرب بھی اسلامی پیغام کو پہنچانے کی تھی۔ چنانچہ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد جہاں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغی وفود عرب کے قبیلے والوں کی خدمت میں دین کا پیغام پہنچا رہے تھے ۔ وہیں سرکارِ مدینہ رحمۃ للعالمیں صلی اللہ علیہ وسلم ، شاہانِ عجم کو بھی تبلیغی ودعوتی خطوط ارسال فرما رہے تھے ۔ چناچہ عیسائی فرمانروا، قیصر روم ، مجوسی بادشاہ ، کسری فارس ، سلطان مصر مقوقس اور افریقہ کےحکمران نجاشی کے نام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد فرامین نبوت لے کر روانہ ہوئے ۔ ادھر مدینہ ملک شام کا دروازہ تھا اور شام میں عیسائیوں کی حکومت تھی ان میں ایک طرف رومی نژاد لوگ تھے جو اصلا یورپین تھے ، دوسری طرف عیسائی تھے ۔ مدینہ منور میں