فقہاء، محدثین سب کا اسی پر عمل رہا۔
صحابہ اور اسلاف کا اجتماع : حضرات صحابہ کرام ، تابعین اور فقہاء امت اور اسلاف امت کا اس بات پر اتفاق اور اجماع ہے کہ رمضان میں بیس رکعت تراویح سنت ہے ۔ چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علیؓ عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہے کہ تراویح بیس رکعت ہیں ، حضرت سفیان ثوری ، ابن مبارک ، اور امام شافعیؒ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعت پڑھتے دیکھا ہے ۔ (ترمذی) شارح مسلم امام نووی فرماتے ہیں کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے ۔ اور یہ بیس رکعت ہیں جن میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (الاذکار) ابن قدامہ فرماتے ہیں اور امام احمد کے ہاں پسندیدہ عمل بیس رکعت کا ہے اور حضرت ثوری بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے صحابہ کو حضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے ۔ نیز حضرت امام احمدکا استدلال حضرت یزید وعلی ؓ کی روایات سے ہے ، ابن قدامہ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے ، آگے یہ بھی فرمایا کہ جس چیز پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں وہی اتباع کے لائق ہے ۔ (ملخص المغنی) (تفصیلات کے لیے دیکھئے نمازِ پیغمبر از فضیلۃ الشیخ محمد الیاس فیصل ، مدینہ منورہ ، ص۲۳۶، تا ۲۵۰)
یقینا حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی عمل تھا کہ وہ تراویح کی بیس رکعت اور وتر کی تین رکعت پڑھاکرتے تھے اور اسی پر آج بھی امت کا سوادِ اعظم عمل پیرا ہے حتی کہ حرمین الشریفین ، کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی میں آج بھی تراویح کی بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہیں اور یہی سنت ہے ۔