مسئلہ ہے ۔ حضرت عمرؓ نے جو بیس رکعتوں کا حکم دیا اور حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ ، حضرت عائشہؓ اور دیگر تمام صحابہ نے جو اسے تسلیم کیا وہ سوائے اس کے نہیں ہوسکتا کہ خودحضرت عمر اور دیگر صحابہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا فعل اسی طرح سنا اور دیکھا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل : یقینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی رکعتوں کا کوئی متعین عدد ثابت نہیں ہے ، مگر بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تراویح میں اکثر بیس رکعت ہی کا تھا، بلکہ آپ نے صحابہ کو بیس رکعت تراویح جماعت کے ساتھ پڑھائی بھی ہے ۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک رات نبی علیہ السلام باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعتیں چار عشاء کی اور بیس تراویح کی پڑھائیں اور تین رکعت وتر پڑھے ۔ (تاریخ جرجان ) ابن ابی شیبہ ایک جلیل القدر محدث ہیں ، ان کی جلالتِ شان کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ امام بخاری وامام مسلم ان کے شاگرد تھے اور انہوں نے ان سے علم حاصل کیا ہے ۔ یہ امام بخاری وامام مسلم کے استاذ اپنی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی مفسر قرآن حبر الامہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضا ن میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے اور وتر کی نماز بھی ۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ کے علاوہ ، موطا امام محمد، عبدبن حمید، بغوی، طبرانی ، بیہقی وغیرہ میں بھی نقل کیا گیا ہے ۔ بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں بغیر جماعت بیس رکعت نماز پڑھاکرتے تھے ‘‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ کے دور میں اکابر صحابہ کرام اور تابعین کا اسی پر تعامل رہا ۔ اوربعد کے ادوار میں بھی ائمہ ، علماء،