ہوجاتے ہیں ۔ بس اتنا کیا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں پھر کربڑے بڑے ہورڈنگس بورڈوں میں دیکھ لیا کہ فلاں جگہ پر مشترکہ قربانی کا حصہ کتنے میں دیا جارہا ہے ، کہیں 2050، کہیں 2000، کہیں 1950اور کہیں اس سے بھی کم تو جو اپنے کو مناسب لگا ، یا جس میں اپنا مفاد زیادہ نظر آیا وہیں جاکر نام لکھا دیے ، ایک پرچہ ہاتھ میں لے لیے اور سمجھے کہ بس ہماری تو قربانی اداہوگئی۔
قارئیں کرام ! راقم الحروف کو معاف فرمائیں ۔ مشترکہ قربانی کے سلسلے میں آج کل شہر بنگلور میں جو کچھ لاپرواہی کے مظاہرے ہورہے ہیں ، چند ایک امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ ایک دفعہ یہ شکایت بھی سننے کو ملی ہے کہ مشترکہ قربانی کے فلاں منتظمین نے اس خیال سے کہ صبح عید کی نماز کے بعد قربانی شروع کریں تو گائے کو ذبح کرنے اور پھر تقسیم گوشت کے لیے وقت بہت کم بچتا ہے ، اور کام زیادہ ہے ، اس لیے قربانی سے پہلے والی رات ہی کو گائے ذبح کردیے اور اس طرح عید کے دن اور وں سے پہلے اپنے کام سے فارغ ہوگئے اور زیادہ نفع کما لیا۔ جب کہ بچہ بچہ یہ مسئلہ جانتا ہے کہ قربانی عید کی نماز کے بعد ہی ادا ہوسکتی ہے ، اس سے پہلے جائز نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عید الاضحی کی نماز پڑھائی ، اس کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ کسی نے (ناواقفیت کی بناء پر) نماز سے پہلے ہی اپنے جانوروں کو ذبح کردیا ہے ، آپ نے فرمایا مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاۃِ فَاِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِہِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصلاۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکَہُ وَ اَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِیْنَ (رواہ مسلم) کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کردیا ،یہ ایسا ہے گویا اس نے اپنے (کھانے ) کے لیے ذبح کیا ہے ، یعنی اس کی قربانی ادا نہیں ہوئی۔ اور جس نے نمازِ عید کے بعد ذبح کیا تو ٹھیک ہے ، اس کی قربانی ادا ہوگئی اور اس نے مسلمانوں والا عمل کیا ۔
اسی طرح یہ شکایت تو بہت عام ہے کہ مشترکہ قربانی کے منتظمین اس قدر’ فربہ‘ اور’