۔ نیز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواجِ مطہرات کی جانب سے گائے ذبح کرنا خود بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے ( رقم الحدیث ۵۱۲۲)قربانی کی فضیلت کا ہلکا سا اندازہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے لگایاجاسکتا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا’’ قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ کوئی اور عمل محبوب نہیں ‘‘۔نیز یہ بھی کہ ’’ جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں اتنی ہی نیکیاں قربانی کرنے والے کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ‘‘۔
ان احادیث مبارکہ کا مقتضاء تو یہ ہے کہ تمام مسلمان خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، اپنی تمام تر مصروفیات کو چھوڑ کر ، اس دن کو قربانی کے لیے خاص کرلیں اور بہر صورت قربانی کا عمل اپنے ہاتھوں انجام دیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ہی یہ عمل انجام دیا تھا ، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرمایا تھا کہ قربانی کے وقت سامنے حاضر رہیں ۔ لیکن شریعت مطہرہ میں جہاں دیگر بہت ساری آسانیاں ہیں وہیں یہ بھی ہے کہ قربانی صرف صاحبِ نصاب پر واجب ہے ،(صاحب نصاب اسے کہتے ہیں کہ جس کے پاس چھ سو بارہ گرام 612چاندی یا اس کی قیمت یا اس کے بقدر ساز وسامان اپنی حاجاتِ اصلیہ سے زائد ہو) اور یہ بھی لازمی نہیں کہ بکرا ہی ذبح کیا جائے ، بلکہ اگر گائے ، بیل ، بھینس ، اونٹ بھی ذبح کرے تو بھی جائز ہے ۔ اور ان بڑے جانوروں میں ایک سے لے کر سات افراد تک شریک ہوسکتے ہیں جب کہ سب کی نیت قربانی ہی کی ہو، محض گوشت کھانے کی نہ ہو۔ اب اس پر بھی مسلمان اپنی کاہلی، بے توجہی ، غفلت اور تساہل وتغافل کی بناء پر مزید آسانیاں تلاش کرنے لگیں ، کہ گائے کو خریدا ہی نہ جائے ، بازار کا رخ ہی نہ کیا جائے ، گائے کی رسی کو بھی ہاتھ نہ لگنے پائیں کہ ہاتھ میلے