تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
رِبا یعنی سود کو پرافٹ کا نام دے کر حلال کردیا گیا اور وہی قدیم نعرہ ”إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا“ یعنی بیع بھی تو سود کی طرح ہے ،لگایا گیا ، زمانہ کی مجبوریاں پیش کی گئیں کہ اب دنیا کا اقتصادی نظام سود کے بغیر ممکن نہیں ، لہٰذا سود کو اِس زمانہ میں حلال ہونا چاہیئے،استغفر اللہ ۔ تصویر سازی کو یہ کہہ کر کہ یہ وہ قدیم زمانے کی طرح پتھروں کے بت اور مجسمے نہیں ہیں جنہیں شرک سے بچنے کے لئے منع کیا گیا تھا ، لہٰذا آج کے زمانے کی فوٹو گرافی میں کوئی حرج نہیں ،ان کو حلال ہی ہونا چاہئے ۔ استغفر اللہ ۔ زنا کو یہ کہہ کر جائز قرار دینے کی باتیں کی جاتی ہیں کہ زنا تو بالجبر ہی ممنوع ہونا چاہیے،جس میں دوسرے کی رضا مندی کے بغیر یہ کام ہوتا ہے ، اور جب دو عاقل و بالغ لڑکا اور لڑکی آپس میں بخوشی راضی ہوں تو اُن کے باہم ملنے میں کیا قباحت ہے ، جیسے بائع اور مشتری بخوشی راضی ہوکر بیع کا معاملہ کرنا چاہیں تو کوئی قباحت نہیں اِسی طرح زنا بھی جبکہ وہ بخوشی ہو جائز ہی ہونا چاہیئے ۔علاوہ ازیں زنا کی ایسی بہت سی شکلیں آج معاشرے میں رائج ہورہی ہیں جن کو زنا ہونے کے باوجود بھی زنا نہیں کہا جاتا ، مثلاً طلاق دینے کے بعد بھی اکٹھے رہنا اور ”ایک مجلس کی تین طلاقوں“ کا ایک ہی طلاق کا فتویٰ لے کر اُس کو ایک ہی سمجھنا اور اُس کے بعد ساری زندگی اس حرام کاری میں مبتلاء رہنا ، یہ سب ایسی شکلیں ہیں جن کی آڑ میں زنا ، بدکاری معاشرے میں رائج ہوتی جارہی ہے ۔أعاذنا اللہ منہ ۔ موسیقی ، میوزک ، گانا بجانا سب جائز ہوچکا ہے اور اس سب کو ”روح کی غذا“ کانام دیاگیا ہے ،اور ستم بالائے ستم یہ کہ اِن غلیظ اور بدبو دار چیزوں کو نعتوں ، اِسلامی نظموں اور دینی پروگراموں کا حصہ بناکر دین اور شریعت کی اور بھی تذلیل کی گئی ، مساجد جیسے مقدّس ماحول میں بھی سیل فونزکی ٹونز جو سراسر گانے اور میوزک پر مشتمل ہوتی ہیں ، اور وہ بکثرت نماز کے دوران بجتی ہیں اور پھر بجتی ہی چلی جاتی ہیں۔ ٹی وی جوکہ تصویر بینی ، فحاشی کے فروغ اور ذہنی تخریب کا سب سے مؤثر اور بڑا ذریعہ ہے ،اور جس کے روز افزوں مضرّتوں اور مفاسد سے کوئی شخص(بشرطیکہ اُسے عقلِ سلیم میں سے کچھ حصہ ملا ہو )انکار نہیں کرسکتا، یہ کہہ کر جائز کردیا گیا ہے کہ آخر اس میں کیا قباحت ہے ، حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہیئے ، اِس میں دینی اور اِسلامی پروگرام بھی تو آتے ہیں ۔