ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
فقیر ہوتے ہیں، حسن کا سانپ گزر جاتا ہے لیکن وہ لکیر ہی کو پیٹتے رہتے ہیں۔ دفتر حسن میں ان کا کام بلوں کو پاس کرنا ہے، کہتے ہیں کہ میں بل پاس کرنے میں ماہر ہوں۔ اس پر میرا شعر ہے کہ ؎ دفترِ حسن میں جب میر اک افسر تھے کبھی پاس کرنے میں بلوں کے کبھی تاخیر نہ کی بڑے رحم دل تھے بے چارے.....! بہر حال اے حسن پر مرنے والو! کان کھول کر سن لو کہ ان حسینوں کو بڑھاپے میں خود بخود چھوڑ دوگے یاحسن کے زوال سے چھوڑدوگے یا اس کی روح نکل جانے سے چھوڑ دو گے۔ اگر کوئی حسین کہہ دے کہ ہم تمہارے ساتھ ہمیشہ لپٹے رہیں گے، ایک منٹ کو بھی الگ نہ ہوں گے تو کب تک لپٹائے رہوگے۔ آخر ایک وقت تو وہ معشوق بوڑھا ہوگا، بال سفید ہوں گے، اس کے دانت ٹوٹیں گے، تب خود بخود اس کو پھینک دو گے، اپنے جسم سے اس کودور کردو گے۔ تو جس کی صورت میں تغیر ہو ایسے حادث و فانی سے کیا دل لگانااَلْعَالَمُ مُتَغَیِّرٌ وَکُلُّ مُتَغَیِّرٍحَادِثٌ فَالْعَالَمُ حَادِثٌ عالم متغیر ہے اور ہر تغیر والی چیز حادِث ہے، فانی ہے پس پورا عالم حادث ہے، پورے عالم میں ایک چیز ایسی نہیں ثابت کرسکتے جو غیر فانی ہو لہٰذا جب پورا عالم حادث ہے تو عالم کی ہر چیز حادث ہے۔ اس کا کوئی جز غیر حادث ، غیرفانی نہیں ہوسکتا اور حسین بھی عالم کا جز ہیں پس یہ بھی فانی و حادث ہیں۔ بس پھر دردِ دل سے یہی کہتا ہوں کہ اختر کی جان پراگر رحم نہیں آتا تو اپنی جانوں پر رحم کرلو (حضرت والا دامت برکاتہم نے گلو گیر آواز میں فرمایا کہ) جو میرے خاص لوگ ہیں، جو کہتے ہیں کہ جب آپ کی جان نکلے تو ہماری جان بھی نکل جائے، اُن سے تو یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ اﷲ کے لیے تم اپنی جان پر غم اُٹھالو تو تم ولی اﷲ بن جاؤ گے۔ میں کہتا ہوں کہ آج عہد کرلو، دل و جان سے ہمت کرلو، وہ ہمت جو اﷲ نے دی ہے، کسی کو مت دیکھو، حسین چاہے مذکر ہو یا مونث ہو مت دیکھو کہ اﷲ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوجائے گا۔ ایک بد نظری سے شیخ کی صحبت کا نور، تہجد