ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
لہٰذا یہ صور ت محال ہے۔ ۲) دوسر ی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سو فیصد نفع نہ لے،پچاس فیصد لے، یعنی ففٹی ففٹی کر لے کہ پچا س فیصد بندے کو دے دے،پچاس فیصد خود لے لے، یہ بھی ناممکن ہے۔ اس میں بھی اللہ کا محتاج ہونا لازم آتا ہے اور اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے نہ کم نہ زیادہ ۔ ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ ۳) تیسری شکل یہ ہے کہ نہ بندہ کا فائدہ ہو نہ اللہ کا ، جس کو چاہا کھانسی دے دی ، جس کو چاہا بخار دے دیا،کسی کو صدمہ وغم دے دیا اور کسی کا ایکسیڈنٹ کرا دیا، جس میں کوئی فائدہ اور مقصد نہیں تو بے فائدہ کام کرنا،بے مقصد کام کرنا، فضول اور لغو کام کرنا،یہ اللہ کی عظمت کے خلاف ہے۔ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ ۴) اب صرف چوتھی شکل باقی ہے کہ ہر مصیبت اور تکلیف میں سوفیصد مومن ہی کا فائدہ ہے۔ قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا میں لام نفع کے لیے ہے ورنہ عَلٰیضررکے لیے آتا۔ تو میں یہ کہتا ہوں کہ ہر نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرو،ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرو، تشکر کی کیفیت غالب رہے تو تکبر پاس نہیں آئے گا۔ تکبر سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر تشکر غالب ہو،کیوں کہ تشکر سبب ِقرب ہے،شکر کرنے سے قُربِ اِلٰہی بڑھتا ہے اور تکبر سے بُعد اور دوری ہوتی ہے اور دوری اور حضوری میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔تکبر کا نقصان اور تواضع کا فائدہ تکبر ایسی بُری بیماری ہے کہ اگر دل میں ایک ذرّہ کے برابر ، رائی کے برابر بھی ہو گا تو جنت تو کیا جنت کی خوشبو بھی نہیں پاؤ گے۔ اور تکبر غیر شعوری طور پر آجاتا ہے، اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو ایک بخاری پڑھانے والا دوسروں کو اپنے سامنے حقیر سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اپنے کو سب مسلمانوں سے کمتر سمجھو فی الحال یعنی موجودہ حالت میں بھی ہم تمام مسلمانوں سے کمتر ہیں اگرچہ بخاری شریف پڑھاتے ہیں اس لیے یہ جملہ روزانہ اللہ تعالیٰ سے کہو ، اس کا معمول بنالو کہ یا اللہ میں تمام مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال اور کافروں سے اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل کہ ابھی اپنا انجام