ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
مجلس بعد مغرب بر مکان یوسف حافظ جی(رسٹن برگ) غم اور پاسِ انفاس ارشاد فرمایا کہ دشمن کو جس نے شاد کیا اس کا منہ کالا ہوا اور اس کو غم اُٹھانا پڑا، ایسی رسوائی ہوئی کہ تاریخ میں اس کا واقعہ عبرت ناک ہوا، اور وہ اپنے عیب کو جانتا ہے کہ آج میرا مرض ظاہر ہوجائے تو میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں، ایک وقت کی روٹی کوئی نہیں کھلائے۔ حسینوں کی محبت کا غم فانی اور منحوس ہے اور ا ﷲ کی محبت کا غم، جائز ناجائز کا غم کہ کس بات سے وہ خوش ہیں اور نہ جانے کس بات سے ناخوش ہیں، جس کو ہر سانس میں یہ فکر ہو وہ دو نعمت سے مشرف ہے، ایک تو اﷲ کی ولایت اور دوسرے پاس انفاس۔ انفاس جمع ہے نفس کی۔ ہر سانس کا وہ لحاظ رکھتا ہے کہ میری کوئی سانس مرضی الٰہی کے خلاف نہ گزرے۔ اس غم کا نام اﷲ کی محبت کا غم ہے، ورنہ پوچھتے ہیں کہ اﷲ کی محبت کا غم کیا ہے؟ غم یہی ہے کہ اﷲ راضی ہے یا نہیں۔ پاس انفاس صوفیا میں مشہور ہے کہ ہر سانس میں وہ ذکر کرتے ہیں لیکن کوئی عورت آجائے یا کوئی اَمرَد آجائے تو اس کو دیکھنے سے جو باز نہ آئے تو کیا یہ پاس ا نفاس ہے۔ پاس انفاس اصلی اور مقبول اﷲ کے نزدیک وہ ہے کہ جو ہر سانس اﷲ کی مرضی کے مطابق گزارتا ہے اور ایک سانس اﷲ کو ناراض نہیں کرتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ یہ ہے اصلی پاس انفاس ورنہ جاہل صوفیوں کا کیا ہے کہ ہر سانس میں اﷲ نکل رہا ہے، بڑے خوش ہورہے ہیں کہ ہم بڑے کامیاب ہیں، مگر جب گناہ کا موقع آتا ہے تو ؎ یوں تو بگلے کی طرح تجھ کو مراقب دیکھا اور مچھلی کو دبوچا تو ترا راز کھلا بگلہ آنکھ بند کرکے سر جھکا ئے دریا میں ساکت بیٹھا رہتا ہے۔ مچھلیاں سمجھتی ہیں کہ کوئی بھگت ہے لیکن جیسے ہی کوئی مچھلی اس کے ٹارگٹ پرآتی ہے فوراً تیزی سے چونچ پانی میں ڈال کر اس کو نگل جاتا ہے اور پھر بھگت بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایسے ہی یہ جاہل صوفیا پاس