ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
ایئرپورٹ سے مفتی حسین بھیات صاحب کے ہمراہ ان کے مکان واقع لنیشیا میں حضرت والا تشریف لائے جہاں پہلے ہی سے کافی حضرات جمع ہوگئے تھے جو ایئرپورٹ پرملاقات کے بعد سیدھے مفتی حسین بھیات کے مکان پردوبارہ ملاقات کے شوق میں آگئے۔ ان میں مولانامنصور الحق صاحب بھی تھے۔ حضرت والا نے مولانا سے باندازِ مزاح فرمایا کہ اپنی ایک غزل اُڑاؤ۔ مولانا نے ترنم سے اپنا کلام سنایا۔ پھر حضرت والا نے نہایت درد سے یہ شعر پڑھا ؎ کہاں تک ضبط ِبے تابی کہاں تک پاسِ بدنامی کلیجہ تھام لو یارو کہ ہم فریاد کرتے ہیںتحدیثِ نعمت فرمایاکہاگرچہ میں تارکِ سلطنت نہیں ہوں لیکن (نہایت رقت کے ساتھ فرمایا) دل میں تارکِ سلطنت کا جذبہ رکھتاہوں۔ میں بادشاہوں کے کانوں کو تلاش کرتاہوں کہ تمام دنیا کے سلاطین جمع ہوجائیں اور میری تقریر کا ہرزبان میں ترجمہ ہو اور اﷲتعالیٰ کا خاص فضل مجھ پر ہو تو پھر دیکھیے تماشا! اگربادشاہ لوٹنے نہ لگیں اور سلطنت ان کو حقیر اور کمتر نہ معلوم ہونے لگے، تو اﷲ کے کرم سے میں یہی گمان رکھتا ہوں۔ پھرمولانا منصورالحق صاحب سے فرمایا کہ چلیے مولانامنصورصاحب سنائیے۔ میں تو اس بیماری میں اتنی دور سے آیا اور آپ لوگ اپنے اپنے کام میں لگے ہیں۔ مولانا منصورالحق صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جتنے دن ملازمت پرنہ جاسکیں اور جوتنخواہ کٹے اس کا میں انتظام کردوں گا۔ (اپنے غلاموں کے ساتھ حضرت والا کو جو تعلق اور محبت ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں۔)مجلس بعد عصربرمکان مفتی حسین بھیات صاحب کراچی سے جوہانسبرگ تک تقریباً ۲۷ گھنٹے کا سفر تھا، حضرت مرشدی کی تھکن