ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
یعنی معلوم نہیں میرا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے یا نہیں، بس یہ دوجملے یاد رکھیے۔ تکبر سے نجات کا دادا پیر نے نسخہ بتا دیاہے، اس سے ان شاء اﷲ تکبر پاس نہیں آئے گا۔ کیوں کہ جب بندہ یہ کہے گا کہ یا اﷲ میں تمام مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال یعنی موجودہ حالت میں کمتر ہوں کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ اگر ہمارے اندر کوئی خوبی ہے تو دوسرے بندہ میں دوسری خوبی ہوسکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ اﷲ کے نزدیک ہو اور کافر اور جانور مجھ سے بہتر ہیں فی المآل یعنی اپنے انجام کے اعتبار سے، معلوم نہیں ہمارا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں ہوگا، بعضے بندے ایسے ہیں کہ زندگی بھر نیکیاں کرتے رہے لیکن آخر میں کوئی ایسا گناہ کرگئے کہ خاتمہ خراب ہوگیا۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں بھی ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک آدمی بڑی بہادری سے جنگ لڑ رہا تھا، کافروں کو خوب قتل کر رہا تھا، لوگوں نے کہا کہ بھئی !یہ تو بڑا بہادر ہے لیکن اسے ایک زخم لگا جس کی تاب نہ لاسکا اور مارے تکلیف کے آخر وقت میں خود کشی کر لی۔مجلس برمکان مفتی حسین بھیات صاحب بعد نمازِ مغرب منکر اور معروف کے معانی ارشاد فرمایا کہمنکر کے معنیٰ ہیں اجنبی یعنی جس سے جان پہچان نہ ہو اور اجنبی آدمی پر اعتماد نہیں ہوتا۔ گناہ کو منکر اسی لیے کہا گیا ہے کہ ہر گناہ طبیعت کے لیے اجنبی ہے، فطرت اس سے مانوس نہیں، اس لیے منکر سے تو طبعی طور پر نفرت ہونی چاہیے اور طبعی طور پر نفرت ہوتی بھی ہے لیکن ہم نے بار بار گناہ کرکے طبیعت کو اس کا عادی بنا دیا ہے جیسے تمباکو کھانے سے قے اور چکر آتے ہیں لیکن عادت ڈالنے کے بعد پھر طبیعت اس کی عادی ہوجاتی ہے۔ اس کے بر عکس معروف کے معنیٰ ہیں جس سے جان پہچان ہو اس لیے نیک کاموں کو معروف کہاگیا ہے کیوں کہ طبیعت کو ان سے پرانی جان پہچان ہے، اس لیے نیک کام کر کے کسی کو پریشانی اور گھبراہٹ نہیں ہوتی کیوں کہ وہ طبیعت کے لیے معروف ہے