ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
عورتوں کے آگے سے موت نکلتا ہے او رپیچھے سے گو اور یہی حال لڑکوں کا بھی ہے اور عورتیں تو کسی وقت حلال ہوسکتی ہیں مثلاً شوہر مرگیا، آپ نے نکاح کے لیے پیغام دے دیا، اس نے قبول کرلیا، ایجاب و قبول ہوگیا اور کام بن گیا لیکن لڑکا کبھی حلال نہیں ہوسکتا، جتنی زیادہ عمر ہوگی اتنی ہی زیادہ اس کی حرمت سمجھ میں آجائے گی، جیسے جیسے عمر بڑھے گی بابا بنا پھر دا دا بنا پھر پردادا بنا،پھر قبر میں ختم ہوگیا پھر اپنے منہ پر جوتے مارنے کو دل چاہے گا کہ ہم نے کہاں اپنی زندگی ضایع کی۔ لیکن اس وقت پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ عین شبابِ حسن کے وقت نظر کو بچالو، غم اٹھالو اور اس غم کے بدلہ میں اللہ کو پالو، دونوں جہاں بنالو۔خوبصورت الفاظ، گندے معانی ارشاد فرمایاکہان مجازی شاعروں نے امّت کا اور بیڑا غرق کردیا۔ خوبصورت الفاظ کے پیچھے مطلب گندا ہوتا ہے ۔ غالب نے کہا تھا ؎ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے معشوق نے پوچھا کہ غالب صاحب کیا مدعا ہے؟ کہا کہ مجھے کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ کہا کچھ تو کہیے، آپ خود ہی تو کہہ رہے تھے کہ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے، اس نے کہا کہ آپ کا جو مقامِ نفرت ہے وہی میرا مدعا ہے ۔ اس نے کہا کہ اچھا نالائق! تو بدمعاشی کرنا چاہتا ہے۔ جوتا نکال کر دس لگائے گا، پھر عاشق صاحب غزل بغل میں دبا کر سر سہلاتے ہوئے بھاگیں گے۔ میرا شعر ہے ؎ میر نے اُس بُت کا جب پیچھا کیا کرب و غم نے میر کا پیچھا کیا اپنے پیچھے کا جو غم دیکھے ہے میر اس کے پیچھے کا نہ پھر پیچھا کیا حضرت مولانا منصور الحق صاحب نے اس شعر کا مفہوم اور غالب کے شعر کی حضرت والا کی مندرجہ بالا شرح کا انگریزی میں ترجمہ کر کے حاضرین کو سنایا۔