ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
دعا نہیں مانگ رہا تھا کہ کہیں غریب نہ ہوجاؤں؟ تو مسجد و مدرسہ میں کیسے مال دوں گا؟ آج اس کے معنیٰ معلوم ہوگئے، آج سے پھر یہ دعا پڑھنا شروع کر دوں گا۔ کتنے صحابہ مال دار تھے، زکوٰۃ ادا کرتے تھے، صدقہ و خیرات دیتے تھے، اگر مسکین سے مفلس ہونا مراد ہوتا تو سارے صحابہ مفلس ہوجاتے، مراد یہ ہے کہ دل مسکین ہو، ہاتھ میں پیسہ ہو، جیب میں پیسہ ہو مگر دل میں نہ ہو، مال خوب ہو، مال کا نشہ نہ ہو۔ (ترجمہ از مولا نا منصور الحق صاحب)وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ کا مطلب ارشاد فرمایا کہ دعائے قنوت میں ایک جملہ ہے: وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ؎ یعنی ہم ترکِ تعلق کرتے ہیں ان لوگوں سے جو تیرے نافرمان ہیں، اس کی وجہ سے بہت سے دیندار لوگ جو اس کا مطلب نہ سمجھے اپنی نافرمان اولاد کو گھرسے نکال دیا کہ وہ نماز نہیں پڑھتا یا انگریزی بال رکھتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ بہت زیادتی ہے۔ یہاں فجور سے مراد فجورِ اعتقادی ہے کہ اگر عقیدہ خراب ہوجائے مثلاً قادیانی ہوجائے، یہودی یا عیسائی ہوجائے تب اس سے قطع تعلق کرنا واجب ہے۔ مَنْ یَّفْجُرُکَ سے مراد فجورِ عملی نہیں ہے کہ مثلاً نماز نہیں پڑھتا، داڑھی نہیں رکھتا، انگریزی بال رکھتا ہے تو اس سے ترکِ تعلق کرنا مراد نہیں ہے کیوں کہ اگر اس کو گھر سے نکال دیا تو بری صحبتوں میں بیٹھ کر وہ بالکل ہی تباہ ہوجائے گا، ان کو جوڑے رہو، سمجھاتے رہو، کتنوں نے داڑھیاں رکھ لیں، نمازی ہوگئے۔ اس لیے اعمال کی کوتاہیوں پر ترکِ تعلق جائز نہیں ہے، پس مَنْ یَّفْجُرُکَسے مراد اعتقادی فجور ہے۔ حضرت حکیم الامت نے اس کو الطرائف و الظرائف میں لکھا ہے۔ (ترجمہ از مولا نا منصور الحق صاحب)نفاقِ عملی اور نفاقِ اعتقادی کا فرق ارشاد فرمایا کہاسی طرح ایک مثال اور دیتا ہوں کہ جہاں حدیثِ پاک ------------------------------