ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
کافراِن سب چیزوں پر غور ہی نہیں کرتے۔ یہ تو نمک چور ہیں، بس نمک چرانا جانتے ہیں، آلات فٹ کر کے نمک نکال لیا، اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کو چرا کے فخر کرتے ہیں کہ دیکھو ہم نے ریسرچ(Research)کر کے بتا دیا کہ اس پانی میں اتنا نمک ہے اور ٹنوں نمک نکال لیا لیکن نمک چورو! کیا یہ نمک تمہارے باپ نے پیدا کیا ہے؟ نمک تک پہنچ گئے لیکن نمک کے خالق تک ان کی رسائی نہیں ہوئی، نعمت تک پہنچ گئے لیکن افسوس کہ نعمت دینے والے کو نہ پہچان سکے اور یہ بات بھی جانتے ہیں کہ اگر پچاس فیصد نمک سمندر میں نہ ہوتا تو اتنی بدبو ہوتی کہ مچھلیاں بھی زندہ نہ رہتیں اور ساحلی علاقوں کی آبادی بھی زندہ نہ رہتی۔ یہ بات تو مولوی حضرات کی سمجھ میں بھی آجانی چاہیے اگر نہ سمجھیں تو میں پوچھتا ہوں کہ آپ حضرات قربانی کی کھالوں میں نمک کیوں لگاتے ہیں؟ تاکہ وہ سڑے نہیں۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سمندر میں نمک ڈال دیا جس سے مچھلیاں زندہ ہیں اور تین چوتھائی (۴؍۳) غذا دنیا کے انسانوں کو خدا سمندر سے دیتا ہے اور ساحلی علاقوں کی حیات کا سبب نمک ہے جس کی وجہ سے بیماریاں نہیں پھیلتی ہیں۔عاشقانِ خدا کی عظمت ارشاد فرمایا کہ اﷲ کے عاشقوں کے آہ و نالہ سے زمین و آسمان قائم ہیں مگر ان کی قدر کرنے والے کم ہیں چوں کہ یہ بھی کم ہیں تو قدر کرنے والے بھی کم ہیں، مگر کم کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، لعل پہاڑوں میں کہیں کہیں ہوتا ہے، ہیرا بھی کہیں کہیں ہوتا ہے اور پتھروں سے پہاڑ بھرا ہوتا ہے تو کیا پتھر کثرت کی وجہ سے لعل اور ہیرے کی برابری کرسکتا ہے؟ تو یہ عاشقانِ خدا اﷲ تعالیٰ کے ہیرے اور لعل ہیں جن کی برکت سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ اسی لیے میں نے یہ شعر کہا ہے کہ ؎ مجھ کو خلوت میں بھی یاد تیری رہے اے خدا عاشقوں کا نظارا بھی دے آپ کب تک یادِ خدا میں رہیں گے آخر تھک کر بیٹھ جائیں گے، تھک جانے کے بعد اﷲ والوں کی صحبت ہی میں سکون ملے گا۔ اس لیے دُرویشوں کی ایک جماعت ہونی چاہیے جس کا نام گروہِ عاشقاں ہے، جو عاشقِ عشق و مستی ہو اور ناواقفِ انتظامِ بستی ہو۔