ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
یہ تین تفسیریں ہیں اس آیت کی جو رسول اﷲ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے جن کے اوپر قرآن نازل ہوا، انہوں نے بیان فرمائیں۔صفتِ عزیز کی صفتِ غفور پر تقدیم کی وجہ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ اور وہ عزیز ہے اور غفورہے۔ عزیز کو غفور پر کیوں مقدم کیا؟ اس میں کیا راز ہے؟ چوں کہ مغفرت اور بخشش صاحبِ قدرت کی زیادہ قابلِ قدر ہوتی ہے۔ ایک آدمی پہلوان ہے اگر گھونسہ مارے تو ناک سے خون جاری ہوجائے، وہ کہتا ہے کہ جاؤ! میں نے معاف کردیا اور ایک کمزور ہے، سانس پھول رہی ہے، چارپائی پر لیٹاہوا ہے، اُٹھتا ہے تو چکر آجاتاہے، وہ کہتاہے کہ جاؤ!میں نے معاف کردیاتو آپ اس کی معافی کی کچھ قدر نہیں کرتے۔ آپ کہیں گے کہ معاف نہ کروگے تو ہمارا کیاکرلوگے؟ اس لیے اﷲتعالیٰ نے اپنی صفتِ قدرت کو پہلے بیان کیا وَھُوَالْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ وہ بہت صاحبِ قدرت ہے، عزیزکے معنیٰ ہیں: اَلْقَادِرُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَلَا یُعْجِزُہٗ شَیْءٌ فِیْ اِسْتِعْمَالِ قُدْرَتِہٖ جو ہر چیز پر قادر ہو، آدمی کو پتھر بنادے اور پتھر کو انسان بنادے، اس کی قدرت کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے، وہ جو چاہے سو کردے، اس کو صاحبِ قدرت کہتے ہیں مثلاً محمدعلی کلے کسی کے ایک گھونسہ مارنا چاہے لیکن موپوٹو کے دس پہلوانوں نے اس کاہاتھ پکڑلیا، مجبور ہوگیا، اپنا ارادہ نافذ نہ کرسکا۔ لیکن اﷲتعالیٰ جو ارادہ کرلے، جو فیصلہ کرلے اس کو کوئی شیٔ نہیں روک سکتی۔ سارے عالم کے پہلوان مل کر بھی اﷲ کے فیصلہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے جس کو اﷲعزت دینا چاہے کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا اور جس کو ذلیل کرنا چاہے، بندر بنانا چاہے، سور اور کتا بنانا چاہے تو اﷲتعالیٰ کے ارادہ میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتا، ساری دنیا مل کر اﷲ کو عاجز نہیں کرسکتی، اس کے استعمالِ قدرت میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتا۔ یہ ہے وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ عزیز کو مقدم فرمایا کہ جانتے ہو تم کو معافی کس ذات سے مل رہی ہے؟ جو بہت بڑا صاحبِ قدرت ہے، بہت بڑے صاحبِ قدرت سے تم کو معافی