ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
نظریں بچانے کی توفیق، ضمانت، علامت اور بشارت ہے اللہ تعالیٰ کو پانے کی۔ جس کو بڑی خوشی ملتی ہے اسی کو توفیق ملتی ہے چھوٹی خوشی قربان کردینے کی۔ جو خوش قسمت ہوتا ہے اسی کو توفیق ہوتی ہے عالی ہمتی اور عالی حوصلہ ہونے کی، پھر وہ اپنی خواہشات پر حملہ کرتا ہے،شیر کی طرح وہ نفس کی خواہش کا خون پی لیتا ہے، خون پینے کی علامت یہ ہے کہ خواہش گر پڑتی ہے، جس طرح جب شیر ہرن کا خون پی لیتا ہے تو ہرن گر جاتا ہے، کھڑے رہنے کی طاقت نہیں رہتی۔ جب بندہ ناجائز ارمانوں کا خون پی لے گاتو سب ارمان گرجائیں گے، خواہشات ضعیف ہوجائیں گی، نفس مثل مردہ کے قابو میں آجائے گا، لیکن اس میں جان کھپانا یہ خوش نصیب لوگوں کا مقام ہے اور جو خود کو گو موت میں ملوث رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اسی میں پڑا رہنے دیتے ہیں۔ ساری عمر پاخانہ پیشاب کے مقام کو چاٹتا رہتا ہے اور اسی کو سمجھتا ہے کہ واہ واہ واہ کیا کمال ہے! کیا ہونٹ، کیا گال ہیں، لیکن یاد رکھو کہ گال کو دیکھو گے تو گالی پاؤگے۔ یہ حرام کی واہ واہ تمہیں دائمی آہ آہ میں مبتلا کردے گی۔خوف اور خشیت کا فرق علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ نے بیان کیا ہے کہ خوف اور خشیت میں فرق یہ ہے کہ خوف میں ڈر ہوتا ہے اور عظمت نہیں ہوتی اور خشیت میں خوف ہوتا ہے عظمت کے ساتھ۔ پولیس کا خوف بھی ہوتا ہے مگر اس میں عظمت نہیں ہوتی، اگر پولیس نے گرفتار کر لیا تو چپکے چپکے اسے دل دل میں گالیاں دے رہے ہیں کہ بدبخت نے شبہ میں پکڑ لیا، کوئی جرم بھی نہیں تھا، اسی طرح سانپ کو مار رہے ہیں مگر ڈر بھی رہے ہیں۔ پس جس خوف میں عظمت نہ ہو اسے خشیت نہیں کہتے، خشیت صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے لیکن قرآن شریف میں جہاں جہاں خوف آیا ہے سب مقید ہے خشیت سے،یہ اصولِ تفسیر ہے کہ اگر ایک جگہ مقید آیا ہو اور دس جگہ آزادی ہو تو وہاں بھی قید پہنچ جاتی ہے، لہٰذا اللہ کے کلام میں جہاں بھی خوف ہے وہ خشیت ہی کے معنوں میں ہے، اس لیے اللہ کی عظمت ہوتے ہوئے آدمی گناہ کیسے کر سکتا ہے؟ پارک میں اب کافی وقت ہوگیا تھا۔ واپسی کا وقت ہورہا تھا۔ سامنے جھیل کا بہت حسین منظر تھا۔ اس کو دیکھ کر حضرت والا نے فرمایا کہ یہ جغرافیہ، یہ منظراور یہ پانی