ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
مولانا منصور صاحب نے عرض کیا حضرت والا نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ حق تعالیٰ کہتی ہے۔ اس پرحضرت والا نے فرمایا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ غیراختیاری ذکر موجبِ قرب نہیں۔ ارادہ کرکے اپنے اختیار سے ذکرکرو کہ اﷲ راضی ہوجائے۔ غیرارادی غیر اختیاری ذکر پر ثواب نہیں ملتا، ارادی اور اختیاری عبادت پر ثواب ہے۔ذکر میں اعتدال مطلوب ہے بعض اشخاص ایسے ملے کہ بیٹھے ہیں اور بلا ارادہ گردن ہل رہی ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ میں نے کہا کہ تمہاری گردن تو گردان کرنے لگی یہ ٹھیک نہیں ہے۔ (مولانا منصور الحق صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہاں گردان کے لفظ سے بہت لطف آیا۔) آج کل ہر وقت ذکر کرنے سے مزاج غیر معتدل ہوجاتا ہے اور اﷲ یہ نہیں چاہتا کہ میرے بندوں کا مزاج غیر معتدل ہوجائے۔کوئی مشفق باپ نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا اتنی خدمت کرے کہ اس کا مزاج غیر معتدل ہوجائے۔ اولیاء اﷲ ہمیشہ معتدل المزاج بنائے جاتے ہیں۔ جب مزاج میں اعتدال نہ رہا تو اخلاق بھی غیر معتدل ہوجائیں گے۔ اس لیے جو تجربہ کار مشایخ ہیں وہ زیادہ ذکر اور وظیفہ نہیں کراتے۔ بس مقررہ اوقات میں جو ذکر ہے اس کو کرلیں۔ اب یہ زمانہ ہر وقت ذکر کرنے کا نہیں ہے۔ہر وقت ذکر کرنے سے آج کل خشکی بڑھ جاتی ہے، نیند میں کمی آجاتی ہے۔ پہلے زمانہ کا ذکر اور وظیفہ اِس زمانہ میں نہیں کرایا جاسکتا ۔ پہلے زمانہ میں اتنا خون ہوتا تھا کہ ہر مہینہ خون نکلوانا پڑتاتھا اور اب خون کی اتنی کمی ہے کہ خون چڑھوانا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے شیخ سے پوچھ لو کہ کتنا وظیفہ پڑھیں اور حکیم الامت فرماتے ہیں کہ شیخ کچھ طبیب بھی ہوکہ صحتِ جسمانی کی حفاظت کا بھی اسے تجربہ ہو۔ جن کا مزاج غیر معتدل ہوگیا وہ بیوی بچوں سے لڑنے لگے، گاہکوں سے لڑنے لگے، دوکان فیل ہوگئی، معاش کے بغیر مفلس اور پریشان ہوگئے۔ذکرِ قلبی اور دوامِ ذکر کی حقیقت مزاج معتدل ہو، ہر وقت باخدا ہو ، دل سے باخدا ہو یہ ضروری نہیں کہ زبان