ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
سے جاری ہوتا ہے۔ پس جس کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے مجاریِ قضاء سے ہوتا ہے، وہ لوگوں کے جھگڑوں میں اپنا وقت ضایع نہیں کرتااور کہتا ہے جیسا حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آج آپ لوگوں پر کوئی الزام نہیں، شیطان نے بھائیوں کے درمیان گڑبڑ کر دی تھی، بھائیوں کی غلطی کو شیطان کے اوپر ڈال دیا،یعنی بھائیوں کی غلطی کو شیطان کی طرف منسوب کرکے ان کوبَری کر دیا تاکہ ندامت کے ساتھ وہ نہ کھائیں، پئیں۔ اس کی نظر لوگوں پر نہیں ہوتی بلکہ اللہ پر ہوتی ہے کہ یہ سب وہاں سے آیا ہے۔ بھلا ان کی مجال تھی کہ یہ میرے منہ کو آتے ؎ بھلا اِن کا منہ تھا میرے منہ کو آتے یہ دشمن اُنہی کے اُبھارے ہوئے ہیں تو اس سے بڑا اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ مجاریِ قضاء پر اس کی نظر ہوتی ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ کو یہی منظور تھا۔ اس لیے یہ لوگوں سے جھگڑنے میں اپنا وقت ضایع نہیں کرتا، جانتا ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہوتاہے اور اگر وہ زیادتی کر رہے ہیں تو اس کی سزا اللہ ان کو دے گا، یہ تو گناہ گار اور ظالم نہیں ہوگا۔ ( مولانا منصور الحق صاحب نے ترجمہ فرمایا )گناہ کی ترغیب دینے والا بھی مجرم ہے ترجمہ کے بعد مولانا سے فرمایا کہ بیٹھیے ابھی اور سنیے۔یہ سن کر تمام سامعین خوش ہو گئے پھر ارشاد فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک عورت زُلیخا عزیز مصر کی بیوی نے برے کام کی طرف ورغلایا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جمع کا صیغہ نازل کیا مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ؎ اے اللہ!مجھے قیدخانہ پیارا ہے اس بات سے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیںیَدْعُوْنَ جمع کا صیغہ ہے واحد کا نہیں ہے،سوال یہ ہوتا ہے کہ ورغلانے والی ایک عورت تھی تو جمع کا صیغہ اللہ تعالیٰ نے کیوں نازل کیا؟حضرت حکیم الامت تھانوی نے اس کا جواب دیا کہ مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام ------------------------------