ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
عالمِ برزخ میں اہلِ ایمان کے مزے ارشاد فرمایا کہ عالمِ دنیا اور عالمِ آخرت کے درمیان عالمِ برزخ ہے جہاں تمام سلف صالحین کی روحیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ عالمِ برزخ میں نیا جسم عطا ہوتا ہے۔ یہ جسم تو یہیں گل سڑ جاتا ہے، لہٰذا یہ تصور کرو کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، بابا فرید الدین عطار، مولانا رومی اورشمس الدین تبریزی اور بڑے بڑے صحابۂکرام عالمِ ارواح میں ہیں اور وہ ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ اس تصور سے موت لذیذ ہوجاتی ہے ورنہ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہم قبر میں اکیلے پڑے رہیں گے۔ مولانا تھانوی فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی قبر میں اُلّو کی طرح اکیلا پڑا رہتا ہے۔ حالاں کہ وہاں دوسرا جسم عطا ہوتا ہے، عالمِ برزخ میں ہر مومن کو سید ا لانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت بھی نصیب ہوتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اور اولیاء کرام رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ میں اولیائے اﷲ میں ان شاءاﷲ! مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ کو پوچھوں گا کہ کہاں ہیں مولانا رومی؟ مجھے ان کی زیارت کرنی ہے کیوں کہ میں نے ان کی مثنوی کی شرح لکھی ہے۔ اولیاء اﷲ میں سب سے پہلے میں ان شاء اﷲ! مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ سے ملاقات کروں گا۔ احقر مرتب نے عرض کیا کہ معارفِ مثنوی کے علاوہ درسِ مثنوی اور فُغانِ رومی بھی حضرت والا کی تالیفات ہیں۔ اِرشاد فرمایا کہ درسِ مثنوی کا اِن شاء اﷲ شام کو درس بھی ہوگا۔ پھر احقرسے فرمایا کہ درسِ مثنوی کا خواب بیان کرو۔ احقر نے عرض کیا رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ یعنی ۱۹۹۸ء میں سات آٹھ ملکوں سے علماء خانقاہ کراچی میں جمع ہوئے تھے۔ ان کی درخواست پر حضرتِ والا نے مثنوی کا درس دیا تھا۔جو درسِ مثنوی مولانا روم کی صورت میں شایع ہوچکا ہے۔ اس وقت کا یہ درس عجیب و غریب درس تھا محبت و معرفت سے لبریز۔ اس کے متعلق حال ہی میں ایک صاحب نے جو حضرت والا سے تعلق رکھتے ہیں جن کا نام سید ثروت حسین صاحب ہے اور وہ مناظرِ دیوبند مولانا سیدمرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمۃ اﷲ علیہ کے پڑ پوتے ہیں۔ انھوں نے خواب