ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
سمجھ کر اس کے ساتھ منہ کالا کرلیا تو اﷲ کی کتنی لعنت برسے گی، کتنا غضب نازل ہوگا کہ ہمارے پیاروں کے ساتھ تم بدفعلی کرتے تھے۔ بتاؤ پھر کہاں جاؤ گے، اﷲ کے غضب سے کیسے بچو گے؟ کتنا خوف ہوگا کہ میں نے اﷲ کے ایسے پیارے بندے کے ساتھ بد فعلی کی ہے، اﷲ کہیں مجھ سے انتقام نہ لے۔ بس اﷲ کے غضب کو یاد کرو اور نظروں کی حفاظت کرو، جو نظر کی حفاظت کرے گا بدفعلی سے محفوظ رہے گا، بدنظری وہ آٹومیٹک زینہ ہے جو بدنظری کی آخری منزل یعنی بدفعلی تک پہنچادیتا ہے۔ اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں جو اپنے کرم سے ایسے مضامین عطا فرماتا ہے۔ سوچ لو کہ شاید ہی کوئی پیر یہ مراقبہ بتائے۔ اﷲ کا شکر ادا کرو کہ اﷲ نے میرے اوپر کیا کرم کیا ہے، کیا انعامات نازل فرمائے ہیں۔ یہ باتیں شاید ہی کہیں ملیں، شاید بھی دعویٰ توڑنے کے لیے کہتا ہوں ورنہ کسی عالم سے سنا ہے یہ مراقبہ؟ سوچ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے عشقِ مجازی سے بچنے کا پی ایچ ڈی کا کورس پڑھانے کے لیے مجھ کو مقرر کیا ہے، لیکن یہ سب میرے بڑوں کا فیض، ان ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ ۲۱؍صفر المظفر۱۴۲۳ھ مطابق ۳؍مئی ۲۰۰۲ء بروز جمعہسمندر کے متعلق عارفانہ ارشادات فجر کی نماز پڑھ کر کچھ علماء حضرت والا کی خدمت میں حاضر تھے، ان کے ہمراہ حضرت والا صبح کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔ ساحلِ سمندر پر سمندر کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ بڑا عجیب جغرافیہ ہے، سمندر گول دائرہ میں معلوم ہو رہا ہے کیوں کہ دنیا گول ہے تو سمندر کیسے چوڑا ہو جائے گا۔ زمین ظرف ہے، سمندر مظروف ہے، جیسا ظرف ہوتا ہے ویسا ہی مظروف نظر آتا ہے اسی لیے سمندر گول نظر آرہا ہے۔ سمندر اﷲ کی بہت بڑی نشانی ہے، سوچو کہ اتنا پانی کس نے پیدا کیا، اتنا پانی پیدا کرنا کس مخلوق کے بس کی بات ہے؟ پھر اس پانی میں پچاس فیصد نمک کس نے ڈالا؟ علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سمندر میں پچاس فیصد نمک اس لیے ڈالا کہ سمندر کی مخلوق زندہ رہے ورنہ پانی سڑ جاتا، سمندر کی مچھلیاں مر جاتیں، دنیا کی تین چوتھائی غذا ختم ہوجاتی اور ایسی بدبو ہوتی کہ ساحلی علاقے کے لوگ بھی مر جاتے لیکن