ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
کے لیے روانگی ہوئی اور دس بجے کے قریب یوسف صاحب کے مکان پر آمد ہوئی، عصر سے مغرب اور مغرب سے عشاء تک حضرت والا نے مجلس فرمائی۔ شب ۱۰؍صفر المظفر ۱۴۲۳ھ مطابق ۲۱؍اپریل۲۰۰۲ء بروز اتوارمجلس بعد مغرب برمکان جناب یوسف ڈیسائی صاحب (اسٹینگر) عذابِ الٰہی ارشاد فرمایا کہحضرت حکیم الامّت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو دنیا ہی میں جہنم کا مزہ چکھنا ہو وہ ظالم عشقِ مجازی میں جری ہوجائے اور کسی اَمرَد یا کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوجائے۔ اس لیے فرمایا کہ عشقِ مجازی عذابِ الہٰی ہے اور انسان یہ بھی نہیں سوچتا کہ جو آج لڑکا ہے وہ کل نانا ابو ہونے والا ہے۔ جب وہ نانا ابّا بن جائے گا، چھوٹے چھوٹے بچے اس کو نانا کہیں گے کیا تب بھی تم اس سے کہو گے کہ میں تم پر عاشق ہوں؟ افسوس ہے کہ انسان کو مستقبل کا خیال نہیں آتا، بس بل کا خیال ہوتا ہے۔ بل کے لیے بلبلاتا ہے اور تل کے لیے تلملاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی لڑکی خوبصورت ہے تو وہ نانی امّاں ہونے والی ہے، پھر کیا منہ اس قابل رہے گا، پھر کیا نانی امّاں کو منہ دِکھاسکو گے۔ لڑکا نانا ابّا ہونے والا ہے، دادا ابّا ہونے والا ہے، لڑکی نانی امّاں اور دادی امّاں ہونے والی ہے۔ پھر کہاں جاؤگے اپنا کالا منہ لے کر ؎ کمر جھک کے مثلِ کمانی ہوئی کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی ان کے بالوں پہ غالب سفیدی ہوئی کوئی دادا ہوا کوئی دادی ہوئی اس لیے مستقبل پر نظر رکھو کہ آیندہ کیا ہوگا، اس وقت تو نقد مزہ ہے لیکن آیندہ تو عذابِ الٰہی ہے اور نقد بھی عذاب ہے۔ عاشقِ مجاز کو نقد عذابِ الٰہی ملتا ہے کہ تڑپتا رہتا ہے، اسی میں جلتا رہتا ہے، نیند بھی نہیں آتی، سکون بھی چِھن جاتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے ؎