ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
غمِ فانی اور غمِ جاوداں ارشاد فرمایاکہجب میں عربی پڑھتا تھاتو ایک شاعر یہ شعر پڑھا کرتا تھا ؎ عارف غمِ جاناں کی توجہ کے تصدق ٹھکرا دیا وہ غم جو غمِ جاوداں نہ تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کا غم جاوداں ہے، باقی کوئی غم جاوداں نہیں۔ اس لیے میں نے دنیا کے غموں کو ٹھکرادیا کیوں کہ وہ جاوداں نہ تھے۔ آپ ہی بتائیے دنیا کا کوئی غم جاوداں ہے؟ مثلاً جو لڑکا آج جوانِ سبزہ آغاز ہے جس پر دین و ایمان فدا کرنے کو جی چاہتا ہے، چند دن کے بعد اس کا جو حال ہوتا ہے وہ میں نے اپنے قطعہ میں بیان کیا ہے ؎ کبھی جو سبزہ آغازِ جواں تھا تو سالارِ گروہِ دلبراں تھا بڑھاپے میں اسے دیکھا گیا جب کسی کا جیسے وہ نانا میاں تھا ہر لڑکا ابّا بننے والا ہے، نانا دادا بننے والا ہے، کیا یہ غمِ جاوداں ہے؟ پھر اپنی عاشقی پر شرمندگی ہوگی، جب نانا ابّا بن جائے گا تو اپنی عاشقی کے دن یاد کرکے شرمندہ ہوگے ا ور اس سے یہ بھی نہ کہہ سکو گے ؎ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو یہی حال لڑکی کا ہے۔ ہر لڑکی نانی امّاں بننے والی ہے یا نہیں؟ جس لڑکی کا غم حاصلِ زندگی معلوم ہوتا تھا وہی لڑکی جب نانی بن گئی، اب اس کی عاشقی کی داستان سب بے کار ہوگئی کہ نہیں؟ جو تاریخِ عشق ضایع ہونے والی، فنا ہونے والی ہے، اس پر کیا زندگی ضایع کرتے ہو۔ جب لڑکا نانا ابّا اور لڑکی نانی امّاں ہوگی، اس وقت تاریخِ عشق فنا ہوگی کہ نہیں؟ معشوقوں کے بڑھاپے کے بعد بتاؤ تاریخِ عشق جوان رہے گی؟ دنیاد ھوکہ کی جگہ ہے، نانی امّاں اور نانا ابّو بننے والوں سے دل نہ لگاؤ۔ میرا ایک قطعہ ہے ؎