ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
اس کا دماغ پاگل ہوجائے گا۔ اس لیے دیکھنا چاہیے کہ اُس وقت مخاطَب کون تھے اور اب مخاطَب کون ہیں۔ جو مخاطَب کہ اب سے تیس گنا زیادہ طاقت رکھتے تھے اور بیس کلو ان کے جسم میں خون تھاتو اب وہ ذکر دس کلو خون رکھنے والوں کو کیسے دیا جاسکتا ہے۔ صحابہ کے زمانہ میں قوتیں بہت تھیں، اب اس زمانہ میں وہ قوت نہیں ہے تو اب وظائف و نوافل و ذکر میں ان کی نقل جائز نہیں۔ یاد رکھو: یَتَبَدَّلُ الْاَحْکَامُ بِتَبَدُّلِ الزَّمَانِ وَالْمَکَانِ ہاں اصول ایسے بنائے گئے ہیں جن میں کسی تبدیلی کی، گنجائش کی ضرورت نہیں۔ جو مغرب کی تین رکعات تھیں وہ اب بھی ہیں اور قیامت تک تین ہی رہیں گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تین کی دورکعات کرلو کہ اب لوگ کمزور ہوگئے ہیں مگر فروعات و مستحبات میں ترمیم ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کو حضرت تھانوی نے بتایا کہ ایک ہزار دفعہ اﷲ اﷲ کرلیا کرو اس نے دس ہزار کرلیا، گرم ہوگیا اور تھانہ بھون کی خانقاہ کے کنویں میں کود پڑا اور کنویں کے اندر بھی ذکر کررہا تھا۔ اس کو مولانا شبیر علی صاحب نے نکالا اور حضرت کے پاس لے گئے۔ حضرت نے دم کرکے پانی دیا، ٹھیک ہوگیا مگر پھر حضرت نے اس کی پٹائی کی کہ ہم نے ایک ہزار بتایا تھا تم نے دس ہزار کیوں کیا۔ شیخ طبیب ہوتا ہے اس کی اتباع ضروری ہے۔ جتنا ذکر شیخ بتائے اتنا ہی کرو، اگر وہ کہہ دے چپ چاپ بیٹھو تو اس کی اتباع کرو۔ بس اس کا اہتمام کرو کہ مرا دل ایک لمحہ کو اﷲ سے غافل نہ ہو۔ ترکِ معصیت ضروری ہے ورنہ بہت سے لوگ نوافل، اشراق و تہجد اور عمرہ کرتے ہیں مگر گناہ کبیرہ تک سے باز نہیں آتے۔ اب بتاؤیہ ولی اﷲ ہوں گے یا شیطان ہوجائیں گے۔ ولی اﷲ ایسے ہوتے ہیں؟ ولی اﷲ تو نافرمانی سے بچتے ہیں بلکہ ایک گناہ بھی نہیں کرتے یعنی گناہ کو اوڑھنا بچھونا نہیں بناتے۔ اگر کبھی خطا ہوگئی تو رو رو کر اﷲ کو راضی کرلیتے ہیں اور آیندہ کو تقویٰ کا عزمِ مصمم کر تے ہیں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی نے فرمایا کہ جو طبیبِ جسمانی کا مسئلہ ہے وہی طبیبِ روحانی کا ہے۔ اگر طبیبِ جسمانی کہتا ہے کہ چھ چھ ماشہ خمیرہ مروارید صبح و شام