ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
سے باخدا ہو، یہی ذکرِ قلبی، یہی دوامِ ذکر ہے کہ دل باخدا ہو اور جسم فرماں بردار ہو، کسی نافرمانی میں مبتلا نہ ہو، اگر زبان سے ذکر کرنے کو کوئی شیخ منع کرتا ہے تو سمجھ لو کہ اس کو اندیشہ ہے کہ اگر یہ ذکر کرے گا تو اس کی خشکی بڑھ جائے گی اس لیے ذکر کو منع کررہا ہے۔ پہلے زمانہ کے احکام میں اور اس زمانہ کے احکام میں فرق ہے۔ اصول ایک ہے لیکن فروعات میں کمی بیشی کا اختیار ہے۔ دیوبند میں ایک طالب علم نے جوکے بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھالی۔ اس کو پیچش شروع ہوگئی۔ اس نے حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ سے شکایت کی کہ حضرت میں نے سنت سمجھ کر جوکی روٹی کھالی جس سے مجھ کو پیچش ہوگئی۔ انہوں نے فرمایا کیا تمہاری آنتیں صحابہ جیسی ہیں؟ تم کو اس زمانہ کے بزرگوں کی نقل کرنی چاہیے کہ وہ کس کس سنت پر عمل کررہے ہیں۔ جن سنتوں پر اس زمانہ کے اولیاء کرام عمل کررہے ہیں بس ان پر عمل کرو۔ اولیاء اﷲ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو۔ پہلے زمانہ کے بزرگوں کی نقل بھی جائز نہیں ہے، ان کے قویٰ بہت اچھے تھے وہ زیادہ ذکر کر کے بھی معتدل رہتے تھے۔ بس آج کل کے زمانہ میں سب سے بڑا ذکر گناہوں سے بچنا ہے، متقی رہو تو چوبیس گھنٹوں کے عبادت گزار رہو گے کیوں کہ تقویٰ نام ہے عدمِ معصیت کا، یہاں کسب نہیں ہے، ترک ہے، یہاں اعمال نہیں ہیں ترکِ اعمال ہے یعنی گناہ کے اعمال نہ کرو، ترکِ گناہ کرو، ہر وقت غم جھیلو، ہر وقت اﷲ کو راضی رکھو، ایسی نسبت عطا ہوگی کہ ہر وقت باخدا رہو گے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ اس زمانہ کے جو صاحبِ نسبت اولیاء اﷲ ہیں ان کی تقلید کرو۔ امام رازی اور امام غزالی کے وظائف کی تقلید اس زمانہ میں نہ کرو۔ وہ ستر ہزار وظائف کرتے تھے اور متأثر نہیں ہوتے تھے، ان کی صحت اعلیٰ تھی، بتاؤ صحابہ جیسی صحت ہماری ہے؟ پھر ہم ان کے اعمال کی نقل کیسے کرسکتے ہیں؟ جو حکم ان کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نفلی اعمال میں دیا اس کی تقلید سب پر واجب نہیں ہے جیسے: لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رُطَبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ ؎ کہ ہر وقت تمہاری زبان اﷲ کے ذکر سے تررہے، لیکن اب کوئی ہروقت ذکر کرے تو ------------------------------